Jump to content

ٹوٹو

From Wikisource
ٹوٹو (1950)
by سعادت حسن منٹو
324953ٹوٹو1950سعادت حسن منٹو

میں سوچ رہا تھا:

دنیا کی سب سے پہلی عورت جب ماں بنی تو کائنات کا رد عمل کیا تھا؟دنیا کے سب سے پہلے مرد نے کیا آسمانوں کی طرف تمتماتی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا کی سب سے پہلی زبان میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نہیں کہا تھا، ’’میں بھی خالق ہوں۔‘‘

ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ میرے آوارہ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ بالکنی سے اٹھ کر میں اندر کمرے میں آیا۔ ٹیلی فون ضدی بچے کی طرح چلائے جارہا تھا۔ٹیلی فون بڑی مفید چیز ہے،مگر مجھے اس سے نفرت ہے،اس لیے کہ یہ وقت بے وقت بجنے لگنا ہے۔۔۔ چنانچہ بہت ہی بددلی سے میں نے ریسیور اٹھایا اور نمبر بتایا، ’’فور فور فائیو سیون۔‘‘

دوسرے سرے سے ہیلو ہیلوشروع ہوئی۔ میں جھنجھلا گیا، ’’کون ہے؟‘‘

جواب ملا، ’’آیا۔‘‘

میں نے آیاؤں کے طرز گفتگو میں پوچھا، ’’کس کومانگتا ہے؟‘‘

’’میم صاحب ہے؟‘‘

’’ہے۔۔۔ ٹھہرو۔‘‘

ٹیلی فون کا ریسیور ایک طرف رکھ کر میں نے اپنی بیوی کو جو غالباً اندر سو رہی تھی، آواز دی، ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔‘‘

آواز سن کر میری بیوی اٹھی اور جمائیاں لیتی ہوئی آئی، ’’یہ کیا مذاق ہے۔۔۔ میم صاحب، میم صاحب!‘‘

میں نے مسکرا کرکہا، ’’میم صاحب ٹھیک ہے۔۔۔ یاد ہے، تم نے اپنی پہلی آیا سے کہا تھا کہ مجھے میم صاحب کے بدلے بیگم صاحبہ کہا کرو تو اس نے بیگم صاحبہ کو بینگن صاحبہ بنا دیا تھا۔‘‘

ایک مسکراتی ہوئی جمائی لے کر میری بیوی نے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘

’’دریافت کرلو۔‘‘

میری بیوی نے ٹیلی فون اٹھایا اور ہیلو ہیلو شروع کردیا۔۔۔ میں باہر بالکنی میں چلا گیا۔۔۔ عورتیں ٹیلی فون کے معاملے میں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ چنانچہ پندرہ بیس منٹ تک ہیلو ہیلو ہوتا رہا۔

میں سوچ رہا تھا۔

ٹیلی فون پرہر دو تین الفاظ کے بعد ہیلو کیوں کہا جاتا ہے؟

کیا اس ہلو ہلوکے عقب میں احساس کمتری تو نہیں۔۔۔؟ بار بار ہلو صرف اسے کرنی چاہیے جسے اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس کی مہمل گفتگو سے تنگ آکر سننے والا ٹیلی فون چھوڑ دے گا۔۔۔ یا ہو سکتا ہے یہ محض عادت ہو۔

دفعتاً میری بیوی گھبرائی ہوئی آئی،’’سعادت صاحب، اس دفعہ معاملہ بہت ہی سیریس معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’کون سا معاملہ؟‘‘

معاملے کی نوعیت بتائے بغیر میری بیوی نے کہنا شروع کردیا،’’بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ گئی ہے۔۔۔ پاگل پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔۔۔ میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں کہ بات کچھ بھی نہیں ہوگی ۔ بس پُھسری کا بھگندر بنا ہوگا۔۔۔ دونوں سر پھرے ہیں۔‘‘

’’اجی حضرت کون؟‘‘

’’میں نے بتایا نہیں آپ کو۔۔۔؟ اوہ۔۔۔ ٹیلی فون، طاہرہ کا تھا!‘‘

’’طاہرہ۔۔۔ کون طاہرہ؟‘‘

’’مسز یزدانی۔‘‘

’’اوہ!‘‘ میں سارا معاملہ سمجھ گیا، ’’کوئی نیا جھگڑا ہوا ہے؟‘‘

’’ نیا اور بہت بڑا۔۔۔ جائیے یزدانی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’مجھ سے کیا بات کرنا چاہتا ہے؟‘‘

’’معلوم نہیں۔۔۔ طاہرہ سے ٹیلی فون چھین کر مجھ سے فقط یہ کہا۔ بھابی جان، ذرا منٹوصاحب کو بلائیے!‘‘

’’خواہ مخواہ میرا مغز چاٹے گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں اٹھا اور ٹیلی فون پر یزدانی سے مخاطب ہوا۔

اس نے صرف اتنا کہا، ’’معاملہ بے حد نازک ہوگیا ہے۔۔۔ تم اور بھابی جان ٹیکسی میں فوراً یہاں آجاؤ۔‘‘

میں اور میری بیوی جلدی کپڑے تبدیل کرکے یزدانی کی طرف روانہ ہوگئے۔۔۔ راستے میں ہم دونوں نے یزدانی اور طاہرہ کے متعلق بے شمار باتیں کیں۔

طاہرہ ایک مشہور عشق پیشہ موسیقار کی خوبصورت لڑکی تھی۔ عطا یزدانی ایک پٹھان آڑھتی کا لڑکا تھا۔ پہلے شاعری شروع کی، پھر ڈرامہ نگاری، اس کے بعد آہستہ آہستہ فلمی کہانیاں لکھنے لگا۔۔۔ طاہرہ کا باپ اپنے آٹھویں عشق میں مشغول تھا اور عطا یزدانی علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے لیے ’’بیلچہ‘‘ نامی ڈرامہ لکھنے میں۔۔۔

ایک شام پریڈ کرتے ہوئے عطا یزدانی کی آنکھیں طاہرہ کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ ساری رات جاگ کر اس نے ایک خط لکھا اور طاہرہ تک پہنچا دیا۔۔۔ چند ماہ تک دونوں میں نامہ و پیام جاری رہا اور آخر کار دونوں کی شادی بغیر کسی حیل حجت ہوگئی۔ عطا یزدانی کو اس بات کا افسوس تھا کہ ان کا عشق ڈرامے سے محروم رہا۔

طاہرہ بھی طبعاً ڈرامہ پسند تھی۔۔۔ عشق اور شادی سے پہلے سہیلیوں کے ساتھ باہر شوپنگ کو جاتی تو ان کے لیے مصیبت بن جاتی۔۔۔ گنجے آدمی کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھوں میں کھجلی شروع ہو جاتی، ’’میں اس کے سر پر ایک دھول تو ضرور جماؤں گی، چاہے تم کچھ ہی کرو۔‘‘

ذہین تھی۔۔۔ ایک دفعہ اس کے پاس کوئی پیٹی کوٹ نہیں تھا۔ اس نے کمر کے گرد ازار بند باندھا اور اس میں ساڑی اڑس کر سہیلیوں کے ساتھ چل دی۔

کیا طاہرہ واقعی عطا یزدانی کے عشق میں مبتلا ہوئی تھی؟ اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ یزدانی کا پہلا عشقیہ خط ملنے پر اس کا رد عمل غالباً یہ تھا کہ کھیل دلچسپ ہے کیا ہرج ہے، کھیل لیا جائے۔ شادی پربھی اس کا رد عمل کچھ اسی قسم کا تھا۔ یوں تو مضبوط کردار کی لڑکی تھی، یعنی جہاں تک با عصمت ہونے کا تعلق ہے، لیکن تھی کھلنڈری۔ اور یہ جو آئے دن اس کا اپنے شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا تھا، میں سمجھتا ہوں ایک کھیل ہی تھا۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے اور حالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ کھیل بڑی خطرناک صورت اختیار کرگیا تھا۔

ہمارے داخل ہوتے ہی وہ شور برپا ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ طاہرہ اور یزدانی دونوں اونچے اونچے سروں میں بولنے لگے۔ گلے، شکوے، طعنے مہنے۔۔۔ پرانے مردوں پر نئی لاشیں، نئی لاشوں پرپرانے مردے۔۔۔ جب دونوں تھک گئے تو آہستہ آہستہ لڑائی کی نوک پلک نکلنے لگی۔

طاہرہ کو شکایت تھی کہ عطا اسٹوڈیو کی ایک واہیات ایکٹرس کو ٹیکسیوں میں لیے لیے پھرتا ہے۔

یزدانی کا بیان تھا کہ یہ سراسر بہتان ہے۔

طاہرہ قرآن اٹھانے کے لیے تیار تھی کہ عطا کا اس ایکٹرس سے ناجائز تعلق ہے۔ جب وہ صاف انکاری ہوا تو طاہرہ نے بڑی تیزی کے ساتھ کہا، ’’کتنے پارسا بنتے ہو۔۔۔ یہ آیا جو کھڑی ہے، کیا تم نے اسے چومنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ وہ تو میں اوپر سے آگئی۔۔۔‘‘

یزدانی گرجا، ’’بکواس بند کرو۔‘‘

اس کے بعد پھر وہی شور برپا ہوگیا۔میں نے سمجھایا۔ میری بیوی نے سمجھایا مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ عطا کو تومیں نے ڈانٹا بھی، ’’زیادتی سراسر تمہاری ہے۔۔۔ معافی مانگو اور یہ قصہ ختم کرو۔‘‘عطا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ میری طرف دیکھا،’’ سعادت، یہ قصہ یوں ختم نہیں ہوگا۔۔۔ میرے متعلق یہ عورت بہت کچھ کہہ چکی ہے، لیکن میں نے اس کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔۔۔ عنایت کو جانتے ہو تم؟‘‘

’’عنایت؟‘‘

’’پلے بیک سنگر۔۔۔ اس کے باپ کا شاگرد!‘‘

’’ہاں ہاں‘‘

’’اول درجے کا چھٹا ہوا بدمعاش ہے۔۔۔ مگر یہ عورت ہر روز اسے یہاں بلاتی ہے۔۔۔ بہانہ یہ ہے کہ۔۔۔‘‘

طاہرہ نے اس کی بات کاٹ دی، ’’بہانہ وہانہ کچھ نہیں۔۔۔ بولو، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

عطا نے انتہائی نفرت کے ساتھ کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

طاہرہ نے اپنے ماتھے پر بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی،’’عنایت میرا چاہنے والا ہے۔۔۔ بس!‘‘

عطا نے گالی دی۔۔۔ عنایت کو موٹی اور طاہرہ کو چھوٹی۔۔۔ پھر شور برپا ہوگیا۔

ایک بار پھر وہی کچھ دہرایا گیا۔ جو پہلے کئی بار کہا جا چکا تھا۔۔۔ میں نے اور میری بیوی نے بہت ثالثی کی مگر نتیجہ وہی صفر۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے عطا اور طاہرہ دونوں اپنے جھگڑے سے مطمئن نہیں۔ لڑائی کے شعلے ایک دم بھڑکتے تھے اور کوئی مرئی نتیجہ پیداکیے بغیر ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ پھر بھڑکائے جاتے تھے، لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں تھا۔

میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ عطا اور طاہرہ چاہتے کیا ہیں مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔۔۔ مجھے بڑی الجھن ہورہی تھی۔ دو گھنٹے سے بک بک اور جھک جھک جاری تھی۔ لیکن انجام خدا معلوم کہاں بھٹک رہا تھا۔ تنگ آکر میں نے کہا،’’بھئی، اگر تم دونوں کی آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر یہی ہے کہ علیحدہ ہو جاؤ۔‘‘

طاہرہ خاموش رہی، لیکن عطا نے چند لمحات غور کرنے کے بعد کہا، ’’علیحدگی نہیں۔۔۔ طلاق!‘‘

طاہرہ چلائی، ’’طلاق، طلاق،طلاق۔۔۔ دیتے کیوں نہیں طلاق۔۔۔ میں کب تمہارے پاؤں پڑی ہوں کہ طلاق نہ دو۔‘‘

عطا نے بڑی مضبوط لہجے میں کہا، ’’دے دوں گا اور بہت جلد۔‘‘

طاہرہ نے اپنے ماتھے پر سے بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی، ’’آج ہی دو۔‘‘

عطا اٹھ کر ٹیلی فون کی طرف بڑھا، ’’میں قاضی سے بات کرتا ہوں۔‘‘

جب میں نے دیکھا کہ معاملہ بگڑ رہا ہے تو اٹھ کر عطا کو روکا، ’’بے وقوف نہ بنو۔۔۔ بیٹھو آرام سے!‘‘

طاہرہ نے کہا، ’’نہیں بھائی جان، آپ مت روکیے۔‘‘

میری بیوی نے طاہرہ کو ڈانٹا، ’’بکواس بند کرو۔‘‘

’’یہ بکواس صرف طلاق ہی سے بند ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر طاہرہ ٹانگ ہلانے لگی۔

’’سن لیا تم نے؟‘‘ عطا مجھ سے مخاطب ہو کر پھر ٹیلی فون کی طرف بڑھا، لیکن میں درمیان میں کھڑا ہوگیا۔

طاہرہ میری بیوی سے مخاطب ہوئی، ’’مجھے طلاق دے کر اس چڈو ایکٹرس سے بیاہ رچائے گا۔‘‘

عطا نے طاہرہ سے پوچھا، ’’اور تو؟‘‘

طاہرہ نے ماتھے پر بالوں کے پسینے میں بھیگی ہوئی جھالر ہاتھ سے اوپر کی، ’’میں۔۔۔ تمہارے اس یوسفِ ثانی عنایت خان سے!‘‘

’’بس اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔۔ ۔حد ہوگئی ہے۔۔۔ تم ہٹ جاؤ ایک طرف۔‘‘ عطا نے ڈائرکٹری اٹھائی اور نمبر دیکھنے لگا۔ جب وہ ٹیلی فون کرنے لگا تو میں نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے ایک دو مرتبہ ڈائل کیا لیکن نمبر نہ ملا۔ مجھے موقعہ ملا تو میں نے اسے پرزور الفاظ میں کہا کہ اپنے ارادے سے باز رہے۔ میری بیوی نے بھی اس سے درخواست کی مگر وہ نہ مانا۔ اس پر طاہرہ نے کہا، ’’صفیہ، تم کچھ نہ کہو۔۔۔ اس آدمی کے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔۔۔ میں تمہیں وہ خط دکھاؤں گی جو شادی سے پہلے اس نے مجھے لکھے تھے۔۔۔ اس وقت میں اس کے دل کا قرار اس کی آنکھوں کا نور تھی۔ میری زبان سے نکلا ہوا صرف ایک لفظ اس کے تِن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے کافی تھا۔۔۔ میرے چہرے کی صرف ایک جھلک دیکھ کر یہ بخوشی مرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔ لیکن آج اسے میری ذرہ برابر پروا نہیں۔‘‘

عطا نے ایک بار پھر نمبر ملانے کی کوشش کی۔

طاہرہ بولتی رہی، ’’میرے باپ کی موسیقی سے بھی اسے عشق تھا۔۔۔ اس کو فخر تھا کہ اتنا بڑا آرٹسٹ مجھے اپنی دا مادی میں قبول کررہا ہے۔۔۔ شادی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اس نے ان کے پاؤں تک دابے، پر آج اسے ان کا کوئی خیال نہیں۔‘‘

عطا ڈائل گھماتا رہا۔

طاہرہ مجھ سے مخاطب ہوئی، ’’آپ کو یہ بھائی کہتا ہے، آپ کی عزت کرتا ہے۔۔۔ کہتا تھا جو کچھ بھائی جان کہیں گے میں مانوں گا۔۔۔ لیکن آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔۔۔ ٹیلی فون کررہا ہے قاضی کو۔۔۔ مجھے طلاق دینے کے لیے۔‘‘

میں نے ٹیلی فون ایک طرف ہٹا دیا، ’’عطا، اب چھوڑو بھی۔‘‘

’’نہیں‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹیلی فون اپنی طرف گھسیٹ لیا۔

طاہرہ بولی،’’ جانے دیجیے بھائی جان۔۔۔ اس کے دل میں میرا کیا،ٹُوٹُو کا بھی کچھ خیال نہیں!‘‘

عطا تیزی سے پلٹا، ’’نام نہ لو ٹُو ٹُو کا!‘‘

طاہرہ نے نتھنے پھلا کرکہا، ’’کیوں نام نہ لوں اس کا؟‘‘

عطا نے ریسیور رکھ دیا، ’’وہ میرا ہے!‘‘

طاہرہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’جب میں تمہاری نہیں ہوں تو وہ کیسے تمہارا ہو سکتا ہے۔۔۔ تم تو اس کا نام بھی نہیں لے سکتے۔‘‘

عطا نے کچھ دیر سوچا، ’’میں سب بندوبست کرلوں گا۔‘‘

طاہرہ کے چہرے پر ایک دم زردی چھا گئی، ’’ٹُو ٹُو کو چھین لو گے مجھ سے؟‘‘

عطا نے بڑے مضبوط لہجے میں جواب دیا،’’ہاں۔‘‘

’’ظالم۔‘‘

طاہرہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ بے ہوش کر گرنے والی ہی تھی کہ میری بیوی نے اسے تھام لیا۔۔۔ عطا پریشان ہوگیا۔ پانی کے چھینٹے۔ یوڈی کلون۔ا سملنگ سالٹ۔ ڈاکٹروں کو ٹیلی فون۔۔۔ اپنے بال نوچ ڈالے، قمیص پھاڑ ڈ الی۔۔۔ طاہرہ ہوش میں آئی تو وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھپکنے لگا، ’’جانم ٹوٹو تمہارا ہے۔۔۔ ٹوٹو تمہارا ہے۔‘‘

طاہرہ نے رونا شروع کردیا، ’’نہیں وہ تمہارا ہے۔‘‘

عطا نے طاہرہ کی آنسوؤں بھری آنکھوں کو چومنا شروع کردیا، ’’میں تمہارا ہوں، تم میری ہو۔۔۔ ٹوٹو تمہارا بھی ہے، میرا بھی ہے۔‘‘

میں نے اپنی بیوی سے اشارہ کیا۔ وہ باہر نکلی تو میں بھی تھوڑی دیر کے بعد چل دیا۔۔۔ ٹیکسی کھڑی تھی، ہم دونوں بیٹھ گئے۔ میری بیوی مسکرا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا،’’یہ یہ ٹوٹو کون ہے؟‘‘

میری بیوی کھکھلا کر ہنس پڑی، ’’ان کا لڑکا۔‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا، ’’لڑکا؟‘‘

میری بیوی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں نے اور زیادہ حیرت سے پوچھا، ’’کب پیدا ہوا تھا۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘

’’ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔ چوتھے مہینے میں ہے۔‘‘

چوتھے مہینے، یعنی اس واقعے کے چار مہینے بعد، میں باہر بالکنی میں بالکل خالی الذہن بیٹھا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ بڑی بے دلی سے اٹھنے والا تھا کہ آواز بند ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیوی آئی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کون تھا؟‘‘

’’یزدانی صاحب۔‘‘

’’کوئی نئی لڑائی تھی؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ طاہرہ کے لڑکی ہوئی ہے۔۔۔ مری ہوئی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی اندر چلی گئی۔

میں سوچنے لگا، ’’اگر اب طاہرہ اور عطا کا جھگڑا ہوا تو اسے کون ٹُو ٹُو چکائے گا؟‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.