ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
Appearance
ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
یاقوت سا دمکنے لگا رنگ خاک کا
لے جاتے ہیں اٹھا کے ملک اس کی نعش کو
یہ مرتبہ ہے تیغ نگہ کے ہلاک کا
اے باغباں نہ مجھ سے ہو آزردہ میں چلا
اک دم خوش آ گیا تھا مجھے سایہ تاک کا
ملنے میں کتنے گرم ہیں یہ ہائے دیکھیو
کشتہ ہوں میں تو شعلہ رخوں کے تپاک کا
اے شعلہ اپنی گرم روی پر نہ بھولیو
عالم ہے اور آہ دل سوزناک کا
آتا ہے اپنے کشتے کی تربت پہ جب وہ شوخ
اک نعرہ واں سے نکلے ہے روحی فداک کا
شکر خدا کہ نام ہے عصمت کا مصحفیؔ
روز جزا گواہ مرے عشق پاک کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |