ٹک اک انصاف کر اتنی بھی کرتا ہے جفا کوئی
Appearance
ٹک اک انصاف کر اتنی بھی کرتا ہے جفا کوئی
کرے گا بعد میرے کس توقع پر وفا کوئی
نظر آتا نہیں ثابت گریباں ایک غنچہ کا
چمن پر یہ ستم کرتا ہے اے باد صبا کوئی
گل و لالہ سے شور انگیز تر ہے گی حنا تیری
نہ ہو دیوانہ کیوں کر دیکھ تیرے دست و پا کوئی
عجب سج سے کیا ہے قتل مجھ کو اس کو مت ٹوکو
طلب کرتا ہے ایسے قاتلوں سے خوں بہا کوئی
گزر جا وصل سے گر ہجر میں دیکھے رضا اس کی
محبت میں یقیںؔ لیتا ہے نام مدعا کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |