ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
Appearance
ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے
کہتا ہوں کبھی گھر میں مرے آ تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے
جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے
پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں
اڑ جائے گی چہرے کی ترے سب یہ جھمک بے
سب بانکپن اب تیرا نظیرؔ عشق نے کھویا
کیا ہو گئی سچ کہہ وہ تیری دوت دبک بے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |