پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
Appearance
پاس اخلاص سخت ہے تکلیف
تاکجا خاطر وضیع و شریف
چشم و دل سے نہ تھی یہ چشم ہمیں
کہ نہ گریہ کے ہو سکیں گے حریف
صبح تک تھا وہیں یہ مخلص بھی
آپ رکھتے تھے شب جہاں تشریف
مجھ سے تجھ بن گیا جو فصل ربیع
کب یہ اشجار سے کرے ہے خریف
یوں کبھو تو نے مے نہ دی ساقی
نائے حلقوم کو سمجھتے قیف
اپنے تئیں آپ وہ نہیں پاتے
فکر میں تجھ کمر کی ہیں جو ضعیف
کیوں نہ واہی ہو شعر قائمؔ کا
ہے دوانے کی آخرش تصنیف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |