پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر
پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر
پار ہو جاتی ہیں سینے کی نگاہیں کیوں کر
دل میں آنے کی نکل آتی ہیں راہیں کیوں کر
اوپر اٹھ جاتی ہیں وہ نیچی نگاہیں کیوں کر
کر لیا کرتے تھے دل کھول کے آہیں کیوں کر
اب یہ رونا ہے کراہیں تو کراہیں کیوں کر
گدگدانے نہیں آتی ہیں سر بام تمہیں
عرش پر کھیلتی ہیں جا کے یہ آہیں کیوں کر
نکلیں گھونگھٹ میں یہ مژگاں کے جو نکلیں بھی کبھی
شوخ ہو جاتی ہیں شرمیلی نگاہیں کیوں کر
تو بھی جانے کہ ملا چاہنے والا تجھ کو
تو بتا دے ترے صدقے تجھے چاہیں کیوں کر
کیا خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
کہ دم سرد بنا کرتی ہے آہیں کیوں کر
طور والو سے لب بام ہیں آنے والے
دیکھیں لڑتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں کیوں کر
شوق ادھر شرم ادھر بات نئی رات نئی
دیکھیں ملتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں کیوں کر
یہ امنگیں یہ ترنگیں یہ جوانی یہ شباب
توبہ کر کے یہ بتاؤ کہ نباہیں کیوں کر
شرم کے پتلے کو آ جاتی ہے کیوں کر شوخی
بجلیاں بنتی ہیں شرمیلی نگاہیں کیوں کر
ہم ریاضؔ اوروں سے خوددار سوا ہیں لیکن
رہ کے معشوقوں میں ہم وضع نباہیں کیوں کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |