پروا نہیں اس کو اور موئے ہم
Appearance
پروا نہیں اس کو اور موئے ہم
کیوں ایسے پہ مبتلا ہوئے ہم
گو پیسے ہی ڈالے جوں حنا وہ
پر چھوڑیں نہ پاؤں بن چھوئے ہم
مژگان دراز اس کی کر یاد
سینے پہ گڑوتے ہیں سوئے ہم
رونے سے مکان خانہ بولے
بس لاکھ جگہ سے اب چوئے ہم
اک بازیٔ عشق سے ہیں عاری
کھیلے ہیں وگرنہ سب جوئے ہم
خوباں کو بن اس کے دیکھیں کیا خاک
ماٹی کے سمجھتے ہیں تھوئے ہم
دم آنکھوں میں آ رہا ہے، لو جان
جلد آؤ وگرنہ اب موئے ہم
اٹھ جانے سے اس کے جرأتؔ اے واے
معلوم نہیں کہ کیا ہوئے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |