پلا ساقیا مئے خنک آب میں
Appearance
پلا ساقیا مئے خنک آب میں
کہ تھمتی نہیں توبہ مہتاب میں
گیا دین کیسا حضور نماز
وہ یاد آئے ابرو جو محراب میں
ملے کچھ تو زخم جگر کا مزہ
بجھا کر رکھا تیغ زہراب میں
الٰہی فلک جس سے پھٹ جائے دے
وہ تاثیر آہ جگر تاب میں
بلند آشیانوں پہ بجلی گری
جو نیچے تھے ڈوبے وہ سیلاب میں
وہ عریاں میں سرما میں تھی جن کی شب
گزرتی سمور اور سنجاب میں
نہ آئے ہوں آزردہ لینا خبر
پڑی دھوم یہ سارے پنجاب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |