پوسٹ مین اس بت کا خط لاتا نہیں
پوسٹ مین اس بت کا خط لاتا نہیں
اور جو لاتا ہے پڑھا جاتا نہیں
عاشقی سے کیوں ہم استعفیٰ نہ دیں
ہوٹلوں کا بل دیا جاتا نہیں
شیخ جی موٹر پہ حج کو جائیے
عہد نو میں اونٹ کام آتا نہیں
بوسہ لیں اس سرو قد کا کس طرح
تار پر ہم سے چڑھا جاتا نہیں
عاشقوں پر ظلم کرنا چھوڑ دیں
کیوں بے قاصد جا کے سمجھاتا نہیں
رات دن فرمائشیں زیور کی ہیں
ہم سے اب عاشق رہا جاتا نہیں
جل گئی سگریٹ سے داڑھی شیخ کی
یہ مگر فیشن سے باز آتا نہیں
فربہی کا طنز کیوں مشتاق پر
تیری چکی سے تو پسواتا نہیں
فیس پہلے جب تلک رکھوا نہ لے
ڈاکٹر اپنے بھی گھر جاتا نہیں
بیکری میں نوکری کرنی پڑی
وہ سوائے کیک کچھ کھاتا نہیں
تیری فرقت میں بہت فاقے کٹے
آ کہ اب بھوکا رہا جاتا نہیں
کب سے ہے مہمان تو اے ہجر یار
بھائی میرے گھر سے کیوں جاتا نہیں
او ستمگر روکنا موٹر ذرا
میرے خچر سے چلا جاتا نہیں
لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں
پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں
حضرت ابن بطوطہ کی غزل
ضد کے مارے وہ صنم گاتا نہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |