پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا
Appearance
پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا
کیا کہا پھر کہہ بت نامہرباں نے کیا کہا
غیر سے ملنا تمہارا سن کے گو ہم چپ رہے
پر سنا ہوگا کہ تم کو اک جہاں نے کیا کہا
گالیوں کی جھاڑ باندھی قصد سرگوشی میں رات
کیا کہا چاہے تھا میں اس بد گماں نے کیا کہا
سب خراج مصر دے کر تھا زلیخا کو یہ سوچ
مول یوسف سے پسر کا کارواں نے کیا کہا
آہ اے مرغ چمن کچھ تو بھی واقف ہے کہ صبح
گل نے کیا پوچھا تھا ہنس کر باغباں نے کیا کہا
پھر لہو ٹپکے ہے پیارے آج کچھ باتوں کے بیچ
سچ کہو لب سے تمہارے رنگ پاں نے کیا کہا
قائمؔ اس کوچہ سے شب غمگیں نہ آتا تھا یوں ہی
کیا کہوں تجھ سے کہ اس کو پاسباں نے کیا کہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |