پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
Appearance
پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
برنگ مہر عجب کچھ چمکتا آتا ہے
ادھر ادھر جو نظر ہے تو اس لیے یارو
جو ڈھب سے تاکتے ہیں ان کو تکتا آتا ہے
کوئی جو راہ میں کہتا ہے دل کی بے تابی
تو اس سے کہتا ہے کیا تو یہ بکتا آتا ہے
ملاپ کرنا ہے جس سے تو اس کی جانب واہ
قدم اٹھاتا ہے جلد اور ہمکتا آتا ہے
ہمارے دل کی جو آتش ہے دینی پھر بھڑکا
جبھی نظیرؔ وہ پلکیں جھپکتا آتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |