پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں
Appearance
پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں
اڑ کے میں پہنچوں چمن میں کیا کروں پر وا نہیں
جی جلا کر ایک بوسہ مانگتے ہیں بار سے
آگے یا قسمت وہ دیکھیں ہاں کرے ہے یا نہیں
حسرت و حرمان و یاس و حیرت رنج و تعب
کیا کہوں اس ہجر میں کیا کیا ہے اور کیا کیا نہیں
ہر کسی سے لگ چلے کیا ذکر ہے امکان کیا
ہم اسے پہچانتے ہیں خوب وہ ایسا نہیں
چار عنصر کی غزل رنگیںؔ کہو تم دوسری
ہے قسم تم کو علی جی کی یہ مت کہنا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |