پھر دیکھتے عیش آدمی کا
Appearance
پھر دیکھتے عیش آدمی کا
بنتا جو فلک مری خوشی کا
گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوس لیا کلی کلی کا
تیرا بھی تو حسن ہے دغاباز
ہوتا ہی نہیں کوئی کسی کا
اتنی ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
تم کوچہ غیر میں نہ جانا
اس راہ میں ہے گزر کسی کا
کس کس نے لئے ہیں تیرے بوسے
ہے لعل نمک فشاں جو پھیکا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارہ سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا
کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا
ایسے سے جو داغؔ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |