پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
Appearance
پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
جان غم دیدہ کو جو گھن سا لگا
اس گلی میں جو میں اٹھا گاہے
پائے خوابیدہ مجھ کو سن سا لگا
اس نے جس وقت اور سر کھینچا
نخل قد اس کا سرو بن سا لگا
اس کے چھلے کے ہیں جو گل کھائے
داغ ہر اک بدن پہ ہن سا لگا
آخر عمر اپنی نظروں میں
جامۂ زندگی کہن سا لگا
کشتیٔ چشم تر کھنچی ہے ادھر
ہے جدھر تار اشک گن سا لگا
یار دھرماتما کا پیار کے ساتھ
بوسہ دینا بھی مجھ کو پن سا لگا
جب دل سوختہ پہ زخم مژہ
نظر آیا وہ صاف پن سا لگا
میں سنا مصحفیؔ کو پیری میں
مجھ کو خیلے وہ خوش سخن سا لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |