پیام (ز خ ش)
Appearance
دل فسردہ کو اب طاقت قرار نہیں
نگاہ شوق کو اب تاب انتظار نہیں
نہیں نہیں مجھے برداشت اب نہیں کی نہیں
خدا کے واسطے کہنا نہ اب کی بار "نہیں"
ہمیشہ وعدے کیے اب کے مل ہی جا آ کر
حیات و وعدہ و دنیا کا اعتبار نہیں
دکھائی اپنی محبت کو چیر کر سینہ
مگر نمود مرا شیوہ و شعار نہیں
مری بہن مری محبوبہ حب عجب شے ہے
جہان خاک نہیں کچھ جو دوست دار نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |