Jump to content

پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی

From Wikisource
پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی (1920)
by علیم اللہ
304389پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی1920علیم اللہ

پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی
نظر سوں عالم کے ہو رہی ہے مثال خفاش بے حجابی

جسے وہ چہتا ہے مکھ دکھانے اسی کو ہے تاب دیکھنے کا
وہی سمجھ بخش مرشد ان کا طلب ہے توں مانگ جا شتابی

اگر ملے تجھ کو چشم باطن وہی ہے مقصود عاقبت سے
وگرنہ تحقیق دوجہاں میں نہیں ہے حاصل بجز خرابی

اسی کو کہتے ہیں کور باطن جسے نہیں ہے گا دید اس کا
نہ پاوے گا وہ نجات ہرگز اگرچہ وہ علم ہے کتابی

کریم مرشد نے چشم باطن کیا نوازش علیمؔ کے تئیں
وسا حقیقت کے گھن کا خورشید گئی نکل کر نظر سرابی


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.