پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
Appearance
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے
اس انقلاب کی بھی کوئی حد ہے دوستو
نا آشنا سمجھتے ہیں اب آشنا مجھے
کشتی پہنچ سکے گی یہ تا ساحل مراد
دھوکا نہ دے خدا کے لیے نا خدا مجھے
وہ طول عمر جس میں نہ ہو لطف زندگی
مل جائے مثل خضر تو کیا فائدہ مجھے
دوں تیرا ساتھ عمر رواں کس طریق سے
آنکھیں دکھا رہے ہیں ترے نقش پا مجھے
تخلیق کائنات کو سوچا کیا مگر
کچھ ابتدا ملی نہ صفیؔ انتہا مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |