پی کے کر لیتا ہوں توبہ جب سے یہ دستور ہے
Appearance
پی کے کر لیتا ہوں توبہ جب سے یہ دستور ہے
دل بھی روشن ہے مرا منہ پر بھی میرے نور ہے
آہ کرتا ہوں تو برہم کے لیے ہوتے ہو تم
درد مندان محبت کا یہی دستور ہے
غیر سے ملنے کے شکوے پر قیامت ڈھا گیا
ان کا یہ کہنا کہ دل سے آدمی مجبور ہے
میں سوال وصل کر کے اس ادا پر مٹ گیا
ہنس کے فرمایا کہ یہ درخواست نامنظور ہے
حشر میں اللہ سے فریاد ان کے ظلم کی
اے رساؔ یہ بات تو شرط وفا سے دور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |