Jump to content

چاول

From Wikisource
319599چاولمرزا عظیم بیگ چغتائی

گزشتہ جولائی کا ذکر ہے کہ ا یک عجیب شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت ایک کمپنی کے ٹریولنگ ایجنٹ ہیں۔ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے۔ ایک اور صاحب ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے، جن سےملاقات ہوئی اور ان کی وجہ سے آپ سے بھی تعارف حاصل ہوا۔ میں نے دونوں حضرات کو کھانے پر مدعو کیا۔ اول تو انہوں نے انکار کیا لیکن بعد میں راضی ہوگئے۔ مگر کہنے لگے ’’ایک شرط پر۔‘‘ میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ چاول میز پر نہ آئیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قسم ہے۔ زیادہ میں پوچھنا بھی نہ چاہتا تھا۔

میں نے اس دعوت میں دو ایک اور احباب کو بھی مدعو کیا اور ان میں سے ایک صاحب اسی روز راستے میں ملے۔ کہنے لگے، ’’مجھے سخت پیچش ہے، میں نہیں آؤں گا۔‘‘ لیکن میں نے ان سے وعدہ لے لیا کہ کیا مضائقہ ہے ویسے ہی آ جانا اور وقت کی پابندی کا تقاضا کر دیا۔ چنانچہ یہ حضرت جو پہنچے ہیں تو سب کھانا کھا رہے تھے۔ آپ بھی آگئے اور آتے ہی میز پر ڈٹ گئے۔ میں سمجھا تھا کہ آپ کھانا کھائیں گے کہ اتنے میں ان کے نوکر نے جو ساتھ تھا، تولیے میں سے نکال کر ایک پلیٹ چاولوں کی اور دہی کا پیالہ رکھ دیا!

چاول میز پر آنا تھا کہ میرے عجیب و غریب مہمان کی نظر پلیٹ پر پڑی۔ ایک دلدوز چیخ اور تڑپ کے ساتھ یہ اپنی جگہ سے اچھل کود کر گویا دور گرے۔ ایسےکہ معلوم ہوا ان کے گولی لگی اور چکرا کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ساری محفل ایک دم سے برہم ہوگئی اور ہم سب حیران و پریشان ان کے گرد جمع ہوگئے۔ بمشکل ان کے ہوش بجا ہوئے تو انہوں نے کہا، ’’ہٹاؤ۔ اس پلیٹ کو۔۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر بغیر کہے سنے ہوئے جانے لگے۔ روکے نہ رکتے تھے۔ میں نے جب انتہا سے زیادہ خوشامد کی اور معافی مانگی اور اپنی بدقسمتی پر حد سے زیادہ تاسف کیا تو بمشکل رکے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ کھانے کے لیے اب کوئی اصرار نہ کرے۔ بمشکل ان کو راضی کیا۔ چاولوں کی پلیٹ ہٹا دی گئی۔ در اصل بات یہ ہوئی کہ ان پیچش زدہ دوست کو ڈاکٹر ے دہی خشکہ بتایا تھا۔ گھر دیر سے پہنچے۔ اِدھر میرا تقاضا تھا کہ وقت پر پہنچنا۔ تکلف برطرف یہ سوچا کہ کھانا کھاتا ہوں تو دیر ہو جائے گی، لہٰذا کیوں نہ اپنا کھانا ساتھ ہی لے چلوں۔ اب جو کچھ بھی ہوا، وہ ہوا لیکن یہ معمہ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر چاول دیکھتے ہی ان کی یہ حالت کیسے ہوگئی۔

کھانا تو انہوں نے نہیں کھایا، لیکن ساتھ ضرور بیٹھے رہے۔ لازمی تھا کہ ان سے معافی مانگتے ہوئے اس غیرمعمولی بات کا سبب دریافت کیا جائے۔ کھانے کے بعد ان کی حالت جب بالکل ٹھیک ہو گئی اور وہ پیشتر کی طرح ہنسنے بولنے لگے تو ہم سب نے ان کو مجبور کیا کہ وجہ بتائیں۔ انہوں نے زیادہ انکار نہیں کیا اور اپنا عجیب و غریب قصہ بیان کیا۔۔۔ جس میں سے چند باتیں چھوڑ کر قصے کے پیرائے میں جس طرح انہوں نے بیان کیا میں آپ کو سناتا ہوں۔ انہوں نے سگریٹ سلگا کر نہایت ہی آہستہ اور سنجیدہ لہجے میں اپنا قصہ اس طرح شروع کیا۔

(۱)

یہ جب کا ذکر ہے کہ میں چھوٹا سا تھا مگر مجھے سب یاد ہے۔ ایسی اچھی طرح گویا کل کی بات ہے اور جب کبھی کسی دلہن کو دیکھتا ہوں تو وہی سین پیش نظر ہو جاتا ہے۔ جس وقت بچوں نے سنا کہ دلہن آگئی تو برات کی دھماچوکڑی میں ایک عجیب و غریب قابل قدر اضافہ ہوگیا۔ ایک بچے صاحب اپنی والدہ کا دودھ نوش فرما رہے تھے۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی لپکیں اور ان بچے صاحب کو اپنے ’’ڈنر‘‘ کے التوا پر سخت غصہ آیا۔ ماں نے بچے کو وہیں چھوڑا جو سہی تو وہ بکھر گیا۔ ایک گھونسا اس کو مار کر وہ اسے اٹھا کر دوڑیں دلہن کی طرف۔ باقی بچے سب کے سب دروازے کی طرف دوڑے، ان میں میں بھی تھا۔ اسی سلسلے میں دوچار بچے واللہ اعلم کس وجہ سے پٹ گئے اور بعض نے یونہی بیزاری ظاہر کر کے رونا شروع کیا۔ ہم سب الگ ہٹا دیے گئے۔ زرق برق لباس میں سے اس کے گورے گورے مہندی کے رنگے ہوئے سرخ ہاتھ دکھائی دے رہے تھے اور خوشبو سے وہ مہک رہی تھی۔ عمر میں میں نے پہلی دفعہ یہ دلہن دیکھی۔

(۲)

اسی دلہن کو دیکھنے ہم دوسرے دن گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دلہن زرق برق کپڑے پہنے بیٹھی ہے۔ مارے شرم کے جھکی جا رہی ہے۔ دراصل اس پر بڑا سخت وقت تھا۔ اردگرد کی عورتیں رونمائی کر رہی تھیں۔ دلہن کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی بی بی بیٹھی تھیں اور ہر دیکھنے والی کے لیے دلہن کا گھونگھٹ اٹھا دیتی تھیں۔ ایک چاند سا کھل کر چھپ جاتا تھا۔ آپس میں عورتیں دلہن کی صورت شکل اور بالخصوص اس کی شرم کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس وقت ہم دو بچے کھڑے دیکھ رہے تھے۔ میرے ساتھی نے کہا، ’’ہماری آپا بھی دلہن بنی تھیں۔‘‘ مجھے سخت حیرت ہوئی اور میں نے اس کی بہن کے دلہن بننے کے حادثے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ تو بہت ہی کالی اور بدصورت تھیں۔ دلہن ایسی نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ایک بی بی سے ہم نے دلہن دیکھنے کو کہا۔ وہ بہت خوش تھیں اور انہوں نے بڑی خوشی سے دلہن کو دکھایا۔ میں نے مسہری کے پاس آکر دیکھا۔ دلہن نے اپنی بند آنکھوں کو شرم سے ذرا جنبش دی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے جھانک کر اسے اچھی طرح دیکھا اور اس کی صورت شکل اس قدر بھولی اور شرمیلی تھی کہ میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ مجھے یہ دلہن بے حد پسند آئی۔ اور میں ہٹا ہی ہوں کہ گونگے چچا آگئے۔ یہ گونگے چچا دولہا کے رشتے کے چچا تھے۔ شادی کے سبب یہ بھی اس وقت نئے کپڑے پہنے تھے۔ یہ بھی دلہن کو دیکھنے آئے اور انگلی اٹھا کر بولے ’’اپو۔۔۔ پائے۔۔۔ پاء۔۔۔‘‘ یعنی ہم بھی دلہن کو دیکھیں گے۔ مگر عورتوں نے انہیں جھڑک کر ہٹا دیا۔ کسی نے خفگی سے بھویں سکیڑیں، کسی نے چہرہ بنایا اور یہ لوٹ گئے۔ نہ یہ سن سکتے تھے اور نہ سوا ’’پع، پع‘‘ کے کچھ بول سکتے تھے۔

(۳)

میں اِدھر سے چلا آیا۔ تھوڑی دیر دوسری طرف کھیلتا رہا پھر اندر گیا۔ سب عورتیں اپنے اپنے کام میں لگی تھیں اور دلہن برآمدے میں اپنے کمرے کے سامنے اکیلی بیٹھی تھی۔ اس کا خوبصورت چہرہ آدھے کے قریب کھلا تھا ار میں دور ہی سے دیکھ رہا تھا کہ اس نے ایک دم سے اپنا منہ چھپا لیا۔ دیکھتا ہوں تو گونگے چچا، یہ دیوانے سے تو تھے ہی، ’’پا۔۔۔ پاعے۔۔۔‘‘ کہہ کر مسکرائے اور سیدھے چلے دلہن کی طرف۔ اب لطف دیکھیے کہ دلہن کی مسہری کے پاس پہنچ کر آپ نہ صرف بے تکلفی سے بیٹھ گئے بلکہ گڑی مڑی دلہن کا گھونگھٹ اس آزادی سےاٹھانے لگے جیسے رونمائی کے وقت اٹھایا جا رہا تھا۔ دلہن سخت گھبرائی، یہ نہ مانے اور دلہن سے بولے، ’’پا۔۔۔ پاء۔۔۔ پاعے۔۔۔‘‘

دلہن نے سخت گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر گھونگھٹ ہی میں سے غالباً امداد کے لیے دیکھا اور جب یہ نہ مانے تو اس نے ’’ہوں‘‘ کر کے ہاتھ سے ان کو روکا۔ مگر یہ بھلا کا ہے کو مانتے۔ خندہ فرما کر، ’’پا۔ پاپاپا۔۔۔ ہے۔ پع۔۔۔‘‘ کرکے اور بھی زیادہ منہمک ہوئے۔ چشم زدن میں دلہن دونوں ہاتھوں سے پنجہ لڑانے لگی۔ وہ ان کے دونوں ہاتھ پکڑتی ہے۔ باوجود گھونگھٹ نکلا ہونے کے مردانہ وار ان کے ہاتھ پکڑتی ہے اور یہ ’’’پع۔۔۔ پا۔۔۔ پع۔۔۔‘‘ کرکے چھڑا کر گھونگٹ الٹتے ہیں کہ میں اتنے میں گھبرا گیا۔ میں نے پکارا، ’’دیکھو، یہ گونگے چچا دلہن کو مار رہے ہیں۔‘‘

میری آواز کے ساتھ ہی ’’پع۔۔۔ پع۔۔۔ پع۔۔۔ پع پاپع۔۔۔‘‘ کی آواز عورتوں کے کان میں بھی پہنچ گئی اور وہاں سے دوتین عورتیں اس سین کو دیکھ کر چیختی چنگھاڑتی جوتیاں چھوڑ چھاڑ کے دوڑیں۔ انہوں نے آکر گونگے چچا کو جھٹک پھینکا۔ دھکے دے کر ایسا غل مچایا کہ بیچارے ’’پع۔۔۔ پع‘‘ کرکے دھکے کھاتے نکل گئے۔ عورتوں نے بڑی دیر تک غل مچایا۔

(۴)

ایک دو روز بعد میں پھر جو پہنچا تو دلہن اپنے کمرے میں تھی۔ میں نے جھانک کے دیکھا تو سچ مچ حیرت کی وجہ سے سکتہ میں رہ گیا۔ وہی شرمیلی دلہن انتہائی شرارت کی تصویر بنی اپنے میاں کی جیب سے نہ معلوم کیا چیز زبردستی چھین رہی تھی اور وہ مارے ہنسی کے بے حال ہو کر چارپائی پر پیچھے ہٹتے ہٹتے لیٹ گئے تھے۔ مگر اس شوخ و شنگ دلہن نے نہ چھوڑا۔ اس کا دوپٹہ بھی سر سے سرک گیا تھا اور مارے خوشی کے چہرہ چمک رہا تھا۔ دونو ں ہنس رہے تھے۔ میں اس شرمیلی دلہن کے اس رویے سے ایسا گھبرایا کہ دلہن نے مجھے دیکھا ہی تھا کہ میں وہاں سے بھاگا۔ میری دانست میں دلہن کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے تھا۔ میں اس کی بے باکی پر سخت متحیر تھا۔

(۵)

دوسرے ہی دن دبے پاؤں میں پھر جو پہنچا اور جھانک کے اس خوبصورت اور شرمیلی دلہن کو دیکھا کہ اس کا میاں آئینے کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے اور یہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آئینے میں دیکھ رہی ہے۔ میں دلہن کے چہرے کی شگفتگی اور انداز کی دلکشی دیکھ کر حیران سا ہو گیا کہ آئینے میں میری اس کی آنکھیں چار ہوئیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چونک پڑی اور ’’کون ہے!‘‘ جو کہا تو میں بدحواس ہو کر ایسا بھاگا کہ گھر پر آکر رکا۔ میں دلہن کے بارے میں قطعی رائے قائم کر چکا تھا کہ یہ بہت ہی بری ہے۔

(۶)

تین چار روز اِدھر کا رخ نہ کیا۔ پھر جو گیا تو ادھر ادھر گھوم کر دلہن کے کمرے کے پاس جو پہنچا تو دلہن نے مجھے کمرے میں سے دیکھا۔ اس کا روشن اور پرنور چہرہ کھلا ہوا تھا اور اس نے مسکراتے ہوئے مجھے انگلی سے آنے کو اشارہ کیا۔ میں کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ برابر اشارہ کرتی رہی حتی کہ میں اس کی طرف گیا۔ مگر کمرے کے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا، ’’اندر آؤ۔‘‘ میں نہ گیا، تو اٹھی اور ادھر ادھر جھانک کر ایک دم سے لپک کر مجھے پکڑ لیا۔ میں نے زیادہ زور نہ لگایا اور شرماتا ہوا گردن نیچی کرکے کھڑا ہو گیا۔ اس نے میرا نام وغیرہ وغیرہ پوچھ کر مجھ سے بار بار آنے کی وجہ دریافت کی اور جب میں کچھ نہ بتا سکا تو مجھ سے کہنے لگی کہ ’’اب جو تم ادھر آئے تو تمہارے کان کاٹ لوں گی۔ بھاگو یہاں سے۔۔۔ لانا چاقو۔‘‘ اور جناب یہ سنتے ہی میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر جو بھاگا ہوں تو گھر جا کر دم لیا۔

یہ کوئی لکھنؤ کے رہنے والے لوگ تھے۔ ملازم پیشہ تھے اور اس کے ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد یہ لوگ نہ معلوم کدھر چلے گئے۔ دلہن اور اس کا خیال بچپن کی ایک بھولی بسری یاد ہو کر رہ گئی۔ جب میں نے اس دلہن کو دیکھا ہے، اس وقت اس کی عمر تخمیناً سولہ یا سترہ برس کی تھی اور میری عمر شاید پانچ برس کی ہوگی۔

(۷)

لیکن ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے کہ ایک عجیب معاملہ پیش آیا۔ اسٹیشن کا نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کہاں جا رہا تھا یہ بھی بتانےکی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں بالتفصیل کوئی بات نہ بتاؤں گا۔ ریل گاڑی جو پلیٹ فارم پر آئی ہے تو میں قریب ہی کھڑا تھا۔ گاڑی باوجودیکہ رکنے والی تھی لیکن رفتار پھر بھی تیز تھی۔ مختلف ڈبے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تیزی سے انٹر کلاس میرے سامنے سے گزرا۔ کھڑکی میں ایک نوعمر عورت کا چہرہ سیاہ رنگ کے برقعے میں مگر بالکل کھلا ہوا میرے سامنے سے تیزی سے گزرا۔ میرے منہ سےنکلا، ’’ارے!‘‘ کیونکہ یہ واقعہ تھا کہ یہ حسین و جمیل چہرہ اسی دلہن کا تھا جسے دیکھے ہوئے آج بیس سال ہوچکے تھے! حالانکہ ایک جھپکی سی میں نے دیکھی لیکن اس چہرے کا حسن و جمال کچھ ایسا تھا کہ بیس برس گزر گئے تھے لیکن میں نے فوراً پہچان لیا۔ میں اس کو ایک عجیب و غریب نظر کی غلطی سمجھا، مگر اسی طرف چلا کیونکہ مجھے بھی اسی درجے میں بیٹھنا تھا۔

اس درجے میں چار پانچ مرد بھی تھے اور یہ نوعمر خاتون ایک کونے سے لگی بیٹھی تھی، ایک ٹرنک تھا اور ایک مختصر بستر جس پر وہ اس وقت کونے میں منہ دیے بیٹھی تھی۔ اندازے سے معلوم کرکے مجھے حیرت ہوئی کہ ان مردوں میں سے کوئی بھی اس کا ساتھی نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ مردانہ انٹر میں وہ کیوں بیٹھی تھی۔

(۸)

کوئی تین اسٹیشن گزرنے کے بعد ڈبے میں سوا میرے اور اس کے کوئی بھی نہ رہ گیا اور اس دوران میں میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ کیونکہ اگلے ہی اسٹیشن پر میں نے اتر کر جو اس کو دوبارہ دیکھا تو اور بھی مغالطہ ہوا! وہی نقشہ۔ رنگ و روپ سب وہی معلوم ہوا جو میں نے بیس برس ہوئے دیکھا تھا لیکن عمر اس کی بھی سولہ یا سترہ برس کی تھی اور یہی سبب ہے کہ دونوں صورتوں میں کچھ فرق نہ تھا۔ میں جب اکیلا رہ گیا تو میں نے قطعی ارادہ کیا کہ اس سے بات چیت کروں۔ اس نے برقعے سے اپنا چہرہ اچھی طرح چھپا لیا تھا۔ میں بغیر کسی بہانہ تلاش کیے اٹھ کر اس بنچ پر آگیا جو اس کے سامنے ہی تھی۔ اس نے میری نقل و حرکت کو غالباً خوف سے دیکھا تو میں نے کہا، ’’محترمہ آپ گھبرائیں نہیں۔ غالباً میں آپ کو جانتا ہوں۔ معاف کیجیے گا میں آپ کو دیکھ کر سخت حیران ہوں کہ غالباً یہی صورت شکل میں نے اب سے بیس برس پہلے دیکھی تھی۔ وہ غالباً آپ کی والدہ ہوں گی۔۔۔‘‘

اس نے گھبرا کر کہا، ’’آپ میری والدہ کو جانتے ہیں! کون تھیں وہ؟ کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘ میں نے واقعہ بتایا کہ مجھے سوا اس کے کچھ یاد نہیں کہ پڑوس میں ایک دلہن کو دیکھنے گیا تھا۔ نہ یہ معلوم کہ اس دلہن کے شوہر کا کیا نام تھا۔ وہ مجسم بے کل ہو گئی۔

’’کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں؟ کسی طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ میرے باپ کا نام۔۔۔ مطلب یہ کہ جن کو آپ بتاتے ہیں کہ آپ کے پڑوس میں رہتے تھے ان کا نام اور پتہ کیا تھا؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا، ’’میں آپ کے سوالات سے سوا اس کے کیا سمجھوں کہ آپ۔۔۔ آپ کو خود کیوں نہیں معلوم۔‘‘ اس نے برقع کا نقاب ذرا سا ہٹاتے ہوئے ٹھنڈی سانس لے کر کہا،

’’جی ہاں! مجھے اپنے ماں باپ کا نام نہیں معلوم۔ خود اپنا اصلی نام نہیں معلوم۔ مجھے چھوٹی سی عمر میں گھر سے کوئی فقیر چرا لایا۔ وہ مجھے لیے لیے پھرا۔ جب اس جگہ آیا جہاں سےمیں آرہی ہوں تو مر گیا اور کسی نہ کسی طرح مجھے ایک بیوہ نے لے لیا اور اپنی لڑکی کی طرح پرورش کیا۔ جب میں بڑی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ماں باپ نہ معلوم کون ہیں۔ ان بیوہ کا پرسوں انتقال ہوگیا۔ اور ان کے آوارہ بھتیجوں کی کشمکش سے بچنے کے لیے میں وہاں سے بھاگی ہوں۔۔۔ اور اسی وجہ سے مردانہ درجے میں بیٹھی ہوں۔‘‘

’’اور آپ کہاں جا رہی ہیں؟‘‘

’’ان بیوہ کے ایک دور کے رشتے کے بھائی کے یہاں۔‘‘

’’وہاں تو کشمکش نہ ہوگی؟‘‘

خاموش۔ اور پھر اپنا سوال کر دیا، ’’آپ نے بتایا نہیں کہ آپ ان کا نام معلوم کر سکتے ہیں جو آپ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ شاید وہی میرے باپ ہوں۔ آپ کا پورا قصہ سن کر تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔ کیا آپ اب اگر ان کو دیکھیں تو پہچان لیں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’جی نہیں۔ مجھے ان کی صورت شکل کا خیال تک نہیں لیکن نام اور پتہ ان کا غالباً معلوم ہو سکتا ہے۔ میرے والد تو انتقال کر چکے تھے۔ ماموں صاحب کے ساتھ میں رہتا تھا اور اب ماموں صاحب بھی زندہ نہیں اور اس جگہ سے ماموں صاحب بھی سال بھر بعد چلے آئے۔ لیکن میری دانست میں محلے میں جا کر مکان والوں سے پتہ چل سکتا ہے۔‘‘

’’تو آپ پتہ لگا سکتے ہیں؟‘‘

’’وہاں خاص طور پر جاؤں تو غالباً پتہ چل سکتا ہے۔‘‘

’’مگر۔۔۔‘‘

وہ کہتے کہتے رک گئی۔

میں نے کہا، ”زممکن ہے مجھے دھوکا ہوا ہو۔۔۔‘‘

گھبرا کر اور ناامید ہو کر اس نے کہا، ’’آپ نے تو کہا کہ آپ کے پڑوس میں۔۔۔‘‘

میں نے کہا، ’’نہیں۔ نہیں۔ یہ میرا مطلب نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کی صورت شکل میں مجھے دھوکا ہوا ہو۔‘‘

اس نے گھبرا کر کہا، ’’مگر آپ نے فرمایا کہ بالکل میری ماں سے۔۔۔ مطلب یہ کہ ان کی صورت سے ملتی ہے۔‘‘

’’خیال ہے میرا۔ میں نے کہا، ’’ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہو۔ آپ کی صورت شکل ان سے ملتی جلتی نہ ہو۔‘‘

’’مگر آپ تو کہتے ہیں کہ ان کی صورت مجھے یاد ہے۔۔۔ مگر ہاں بہت دن ہوگئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ان کی صورت شکل تو ایسی یاد ہے کہ دل پر گویا نقش ہے۔۔۔‘‘ بات کاٹ کر خوش ہو کر وہ بولی، ’’تو پھر تو غلطی نہیں ہوسکتی۔‘‘ میں نے کہا، ’’جہاں تک ان کی صورت کا سوال ہے بے شک غلطی نہیں ہو سکتی مگر۔۔۔‘‘ میں رک گیا۔ غالباً وہ سمجھ گئی۔ مجھے چنداں غرض نہ تھی، لہٰذا میں بھی چپ ہی رہا۔ مگر حالت اس کی قابل رحم تھی۔ جب میں نہ بولا تو ہار کر وہ خود بولی، ’’آپ کوشش کردیں۔۔۔ شاید وہ میری ماں ہو جن کو آپ نے دیکھا۔ میں عمر بھر اس احسان کو نہ بھولوں گی۔‘‘

اس کی آواز میں غم تھا۔ میں خود مشکوک تھا۔ ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا۔ میں نے کہا، ’’محترمہ۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا اور وہ بھی محض ایک جھلک دیکھنے کے بعد میں نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک حق بجانب ہے۔ رہ گیا میری خدمت کا سوال تو میں اس کے لیے بھی حاضر ہوں مگر مجھے شبہ ہے کہ ممکن ہے کہ۔۔۔‘‘

’’آپ اپنا شبہ۔۔۔‘‘

میں نے کہا، ’’مجھے خود لحاظ معلوم ہوتا ہے، میں نے آپ کو غور سے نہیں دیکھا ہے۔۔۔‘‘ اس نے غمناک لہجے میں کہا، ’’میں اپنی ماں اور باپ کا پتہ لگانے کے لیے جب بول رہی ہوں۔۔۔‘‘ وہ رک گئی۔ پھر اس نے ٹھہر کر کہا، ’’آپ مجھے اچھی طرح دیکھ لیجیے۔‘‘ گھٹی ہوئی آواز اور غمناک لہجے میں کہا۔ اب میں اس انتظار میں کہ یہ خود نقاب روئے روشن سے اٹھائیں لیکن زخم پر زخم پہنچانا مناسب نہ معلوم ہوا اور میں نے یہ کہتے ہوئے، ’’معاف کیجیے گا۔۔۔‘‘ نقاب چہرے سے آہستہ سے ہٹا کر ایک طرف کر دیا۔ ایک دم سے معصوم نظریں جھک گئیں اور میں حیرت زدہ ہو کر رہ گیا۔ ہو بہو وہی تصویر تھی۔ ذرہ بھر فرق نہیں۔ وہی رنگ اور روپ۔ وہی ناک اور نقشہ۔ چہرے کی چمک اور دمک سب ہی وہی۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ میرے دیکھتے دیکھتے معصوم آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اور بڑی بڑی مگر شرمیلی پلکوں پر دو موٹے موٹے آنسو لٹکنے لگے۔ میرا دل پگھل گیا۔ میں نے فوراً نقاب چھوڑ دیا اور کہا، ’’میں گارنٹی کرتا ہوں کہ وہ آپ کی ماں تھیں۔ اگر وہ زندہ ہیں تو میں آپ کو ان سے ملانے کا ذمہ لیتا ہوں مگر۔۔۔‘‘

’’مگر۔۔۔‘‘ اس نے گھبرا کر کہا۔ میں نے کہا، ’’یہ بتائیے آپ کہاں جا رہی ہیں؟ وہاں آپ کو تکلیف تو نہ ہوگی۔‘‘

’’میں بتا تو چکی۔‘‘ اس نے رک کر کہا، ’’بہت ممکن ہے وہ نہ رکھیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی شادی ابھی نہیں ہوئی۔۔۔ تو پھر آپ کہاں رہیں گی؟‘‘ اس نے سر کے اشارے سے نفی میں جواب دیا اور کچھ نہ بولی۔ میں نے کہا، ’’میں ڈیڑھ سو روپے کا نوکر ہوں۔ میری شادی بھی ابھی نہیں ہوئی ہے اور آپ خود کہتی ہیں کہ آپ کا کوئی نہیں۔ کیا ہم اور آپ ایک دوسرے کے شریک حیات نہ ہو جائیں۔ پھر آپ میرے ساتھ زیادہ آزادی سے رہ سکتی ہیں۔ ہم دونوں مل کر ڈھونڈ لیں گے۔ یعنی آپ بھی میرے ساتھ ہوں تو بہتر ہے۔۔۔‘‘ میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ پھر سر جھکا لیا اور کہا، ’’میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپ ہوگئی۔

میں جس کام سے جا رہا تھا اس کو ملتوی کیا۔ رخصت کی توسیع کے لیے اگلے اسٹیشن پر تار دیا۔ سفر وہیں کا وہیں روک دیا۔ شب کو وہیں ہم دونوں کا عین مسافرت میں ڈاک بنگلے میں نکاح ہوگیا۔ ایک مجسٹریٹ صاحب کو میں نے اپنے کاغذات دکھا کر حال بتا کر اپنی شناخت کے بارے میں مطمئن کر دیا۔ اب میں کیا عرض کروں کہ میری بیوی کا اپنے والدین سے ملنے کے لیے کیا حال ہو رہا تھا۔

اب میں شہر میں پہنچا تو محلے یاد نہیں۔ تانگے والے نے کہا کہاں لے چلوں تو میں نے کہا، ’’جہاں تیرا جی چاہے۔‘‘ ہم دونوں میاں بیوی تانگے پر اور اب ہر محلے میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں صاحب یعنی میرے ماموں اب سے بیس برس پہلے تو یہاں نہیں رہتے تھے۔ ہوتے ہوتے آخر کو جب وہ محلہ آیا تو میں نے مسجد دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اور تانگہ ادھر ادھر گھمایا تو بچپن میں جن گلیوں میں کھیلا تھا وہ شناخت کر لیں اور چشم زدن میں ہمارا تانگہ اس گھر کے سامنے آکر رک گیا جس میں اب سے بیس برس پہلے میں نے دلہن کو دیکھا تھا۔

خدا کی پناہ۔ میری بیوی دیوانی ہوگئی۔ مارے خوشی کے اس کا برا حال ہوگیا، حالانکہ گھر ملنے سے عزیز کا ملنا لازمی تو نہ تھا۔ دریافت پر معلوم ہوا کہ اس مکان میں کرایہ دار صاحب ہیں اور مالک مکان ’’وہاں‘‘ رہتے ہیں۔ ’’وہاں‘‘ جو گئے تو معلوم ہوا کہ مالک مکان مر گئے۔ ان کے لڑکے تھے۔ انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم۔ ایک پڑوسی کا نام بتایا کہ بڈھے ہیں ان سے پوچھو۔ پھر واپس لوٹے تو ایک بڑے میاں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہاں اس مکان میں اب سے بیس برس پیشتر ایک ڈاک خانے کے انسپکٹر رہتے تھے، ان کی شادی بھی ہوئی تھی مگر نام نہیں معلوم۔ یہاں سے اب ڈاک خانے دوڑے، معلوم ہوا کہ ’فرض کیجیے‘ ان کا نام محمد خاں تھا۔ سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات ہیں اور آج کل لاہور میں ہیں۔

ایک دوسرے کلرک بولے لاہور میں اب نہیں ہیں بلکہ پہلے تھے اور قبل از وقت پنشن لے کر اپنے وطن کے شہر میں۔۔۔ بیمہ کمپنی کا بزنس کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کو تار دیا جائے تو جواب دیں۔ بیمہ کمپنی کا نام نہیں معلوم۔ اتنا ہی کافی تھا۔ وہیں کے وہیں میں ان پنشنر سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات و حال بیمہ ایجنٹ کا پتہ کر کے بذریعہ جوابی تار ان سے پوچھا، ’’کیا آپ کی لڑکی تو گم نہیں ہوئی تھی۔‘‘ تار ارجنٹ دیا اور وہیں کے وہیں بیٹھ کر لگے انتظار کرنے۔

مگر دو تین گھنٹے گزر گئے اور تار کا جواب نہ آیا۔ تب پوسٹ ماسٹر کو جوابی تار دیا کہ جواب دو تار کہاں گیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ’’وہ صاحب‘‘ کوئٹہ میں ہیں لہٰذا تار ان کو بصیغہ ڈاک بھیجے ہیں۔ ہم نے دوسرا تار دیا کہ جس پتے پر بھیجتے ہو اس سے ہمیں مطلع کرو۔ پتہ معلوم ہوا تو اب ہم نے اسی مضمون کا تار کوئٹے کے پتے پر دیا اور پھر لگے انتظار کرنے۔ اور اسی دن کا ذکر ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ہمارے سامنے چاول آئے تو میری بیوی نے نفرت سے کہا، ’’ہٹاؤ ان کم بختوں کو۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ تو منہ بنا کر بولی، ’’برے لگتے ہیں مجھے اس وقت۔۔۔ کم بخت کیڑے سے!‘‘ اور ایسے برے لگے کہ ہٹا دیے۔

ہمیں اتنظار زیادہ نہ کرنا پڑا۔ تار کا جواب آیا کہ ’’ہاں، (یعنی کھوگئی تھی) کہاں ہے اور تم کون ہو؟‘‘ خدا کی پناہ! خوشی کے مارے میری بیوی دیوانی ہو کر مجھ سے چمٹ گئی۔ محبت کے مارے اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر دبا لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ خوشی کی زیادتی کے سبب اس سے بولا نہ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں محبت اور شکریے کے آنسو تھے۔ وہ میری کتنی شکرگزار تھی! اس کو کتنی خوشی تھی، اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ میں نے فوراً تار دیا کہ ’’میں اس لڑکی کا شوہر ہوں اور وہ لڑکی یہاں ہے۔‘‘

یہ تار دے کر ہم ڈاک بنگلہ آئے اور گاڑی کا وقت جو معلوم کیا اور گھڑی جو دیکھی تو کوئٹہ جانے والی گاڑی تیار ہو رہی تھی۔ دس منٹ گاڑی میں باقی تھے۔ ظاہر ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ فوراً اسٹیشن روانہ ہوگئے۔ اپنی روانگی کا تار دینا ضروری تھا۔ ڈاک خانہ جا نہ سکتے تھے۔ لہٰذا اسٹیشن پہنچ کر میں نے تار دیا کہ ’’ہم آتے ہیں۔‘‘ اور فوراً روانہ ہوگئے۔ میں عرض نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کا خوشی کے مارے کیا حال تھا۔ حماقت تو دیکھیے کہ خوشی کی جلدی میں پہلے والے تار میں یہ لکھنا ہی بھول گئے کہ ہم آ رہے ہیں۔

راستے میں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش نہ آیا۔ سوائے ایک چھوٹے سے واقعے کے جو کچھ قابل ذکر بھی نہیں۔ ہمیں۔۔۔ اسٹیشن پر گاڑی بدلنا تھی اور آدھ گھنٹے سے زائد انتظار دوسری گاڑی کا کرنا تھا۔ جلدی اس قدر تھی کہ میں نے ایک کنارے بنچ کے پاس ہی ٹرنک اور بستر رکھ اس پر بیوی کو بٹھا دیا اور خود لگا ٹہلنے۔

اسٹیشن پر آپ سمجھیں ہر قسم کے آدمی آتے ہیں۔ میں جو واپس آیا تو میری بیوی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے دیکھا، ’’دیکھا تم نے اس کم بخت کو، بدتمیز کہیں کا۔‘‘ میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف آس پاس منڈلا رہا ہے بلکہ گھورتا ہے۔ میں نے مزاحاً کہا، ’’ظالم تو چیز ہی ایسی ہے۔‘‘ اور پھر ادھر چل دیا۔ مگر اب دور سے جو میں نے دیکھا تو وہی حضرت لوٹے واپس اور پھر نہایت بدتمیزی سے میری بیوی کو اس طرح گھورنے لگے کہ معلوم ہو اخبار پڑھ رہے ہیں اور پھر تھوڑی دور چل کر لوٹے اور پھر دوسری طرف سے واپس ہو کر لوٹے اس طرح کہ مجھے سخت برا معلوم ہوا۔ یہاں پردے کا سوال نہیں، سوال بدتمیزی کا تھا۔ اتنے میں آپ بنچ پر بیٹھ کر سچ مچ اس طرح گھورنے لگے کہ منہ کے سامنے تو اخبار ہے مگر آنکھیں ہیں کہ برقعے کی طرف اور وہ بھی اس بدتمیزی کے ساتھ کہ عرض نہیں کر سکتا۔

میں اس شخص کی بدتمیزی پر جل بھن کر خاک ہی تو ہو گیا اور لپکتا ہوا آیا اور آتے ہی میں نے کہا، ’’شرم نہیں آتی آپ کو۔۔۔ مسلمان ہو کر آپ۔۔۔‘‘ بھنا کر میں نے دیکھا، ’’کیا آپ اس بنچ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔۔‘‘ میں نے سامنے والی بنچ کی طرف اشارہ کیا۔

’’معاف کیجیے گا۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘

ایک دم سے گاڑی آگئی اور قلی نے اسباب اٹھایا اور ہم چل دیے مگر یہ بدتمیز دیکھتا ہی رہا۔ ہم کوئٹہ پہنچے ہیں تو مارے خوشی کے ہمارا برا حال ہو گیا، لیکن تعجب تو جب ہوا کہ کوئی بھی صورت ایسی نظر نہ آئی جو ہماری متلاشی یا منتظر ہو۔ بہت کچھ ادھر ادھر دیکھا مگر کوئی صورت کسی کو منتظر نہ معلوم ہوئی۔ اسٹیشن پر تار کے بارے میں دریافت کیا معلوم ہوا کہ ریلوے محکمہ کوئی گارنٹی دیر یا جلدی کی نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ خیر ہمیں پتہ تو معلوم ہی تھا۔ اب میری بیوی کا یہ عالم تھا کہ ماں باپ سے ملنے کی خوشی میں اس کے دل میں درد سا ہوتا تھا۔ اس کی صورت، اس کی شکل، اس کی زبان۔ قصہ مختصر وہ مجسم شکر یہ بنی ہوئی تھی۔

قصہ کو مختصر کرکے عرض ہے کہ ہم گھر جو پہنچے تو سناٹا۔ صرف ایک نوکرانی تھی اور باہر ایک نوکر۔ یہ دونوں ہی خوشی سے باؤلے ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا پہلا تار ملتے ہی ارجنٹ تار دے دیا کہ ’’ہم آتے ہیں‘‘ اور چونکہ گاڑی تیار تھی اور ماں باپ بیٹی کے لیے بے تاب تھے، لہٰذا فوراً چل دیے۔

میری بیوی ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسی وقت اندازہ لگایا کہ گاڑی کس اسٹیشن پر ہوگی اور اس اسٹیشن ماسٹر کی معرفت تار دیا اور ایک تار جہاں سے ہم آئے تھے وہاں کے پتہ پر دیا۔ اب پریشانی تو یہ تھی کہ وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ ہم ٹھہرے کہاں تھے۔ ہم تو ڈاک بنگلے میں تھے۔ لہٰذا ڈاک بنگلے ہی کی معرفت تار دیا۔ اب اتفاق تو دیکھیے کہ کھانا جو سامنے آیا تو چاول! میری بیوی نے پھر اس نفرت سے کہا کہ ’’ہٹاؤ انہیں سامنے سے۔۔۔ کیڑے سے ہیں۔۔۔‘‘ حالانکہ معلوم ہوا کہ چاولوں سےاسے رغبت تھی مگر نہ معلوم کیوں۔ شاید سفر وغیرہ کے سبب برے معلوم ہوئے۔

میری بیوی نوکرانی سے باتیں کرنے لگی۔ معلوم ہوا کہ سوا میری بیوی کے ان کے کوئی اولاد نہیں۔ ایک نوجوان بیٹا تھا، وہ سال بھر ہوا مر گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تار ملتے ہی میری ساس کا عجیب وارفتگی کا سا عالم ہو گیا تھا۔ بے تاب تھیں کہ اپنی بیٹی کے پاس کیسے پر لگا کر پہنچ جاؤں۔ میری بیوی کا بھی سن کر وہی حال ہوا۔ حد یہ کہ آنسو جاری ہیں اور اپنی ماں اور باپ کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر اس نے وارفتگی کے عالم میں چومنا شروع کیا۔ ہر بات دیوانوں کی سی تھی۔

ہم کوئٹہ کوئی رات کے نو بجے پہنچے ہوں گے اور اسی بات چیت میں گیارہ بج گئے۔ نوکرانی اور نوکر چلے گئے اور ہم دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ہاں یہ کہنا بھول گیا کہ ایک تار اور ہم نے دلوایا تھا۔ یہ تار ڈاک بنگلے کے نوکر کے نام دیا تھا کہ اسٹیشن پر جا کر تم فلاں فلاں نام کے شخص سے ملو اور کہہ دو کہ ہم یہاں ہیں۔ اس کے عوض ہم نے انعام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ رات کے بارہ بجے اور ہم در اصل انتظار کر رہے تھے کہ شاید اس تار کا جواب آتاہو۔ میں نے بیوی سے کہا بھی کہ سو جاؤ مگر اسے نیند کہاں۔ ہم اسی طرح باتیں کیا کیے اور وقت گزرتا گیا۔

کمرہ بجلی کی روشنی سے جگمگا رہا تھا اور میری بیوی رہ رہ کر اپنی خوش قسمتی پر خوش ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں محبت کا نور تھا۔ چہرے پر ایک دلربا لرزش تھی۔ آواز میں ایک دلکش ترنم تھا۔ جذبات کا یہ حال کہ نوجوان سینے میں معلوم ہو کہ محبت کا ایک طوفان بند ہے جس کے مد و جزر کے سبب کبھی تو وہ آنکھوں اور چہرے پر عجیب و غریب لرزش پیدا کرکے عجیب طرح سانس لیتی تھی اور کبھی خاموش سی ہو جاتی اور میں دیکھتا کہ شادمانی سے آنکھوں میں ایک دلربا جنبش ہے۔ میں اس کے سینے کو دیکھتا تھا کہ کس طرح جذبات محبت کے سبب دب دب کر ابھر رہے ہیں۔

’’یا میرے اللہ!‘‘ اس نے اپنے چہرے پر عجیب و غریب چمک پیدا کر کے کہا، ’’میرا کیا حال ہوگا جب ملوں گی۔‘‘ اور اتنا کہہ کر اس نے ایک عجیب انداز سے اپنی گردن جھکائی اور آہستہ آہستہ میری طرف جھکتے ہوئے میرے سینے پر محبت سے سر رکھ دیا۔ اس کا محبت آمیز دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے محبت سے کلیجے سے لگا لیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی مخمور آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب انداز سے مسکراہٹ کو روکتے ہوئے آنکھیں جھپکاکر کہا، ’’جان!‘‘ اور میری گردن میں ہاتھ حمائل کرکے میرے دل میں گھسنے کی کوشش کی۔ میں نے بے اختیار ہو کر اس کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا ہے کہ ہم دونو ں چونک پڑے! یہ کیا! ہیں! ایک دل دہلا دینے والی ہیبت ناک گرج تھی۔ زمین کا خوفناک دیوتا گڑگڑا رہا تھا۔ ہماری سمجھ میں بھی نہ آیا تھا کہ کیا ہوا کہ قیامت آگئی۔

ایک ہیبت ناک گرج کے ساتھ مکان کی چھت گری۔ میری بیوی کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ صور اسرافیل پھونک دیا گیا تھا اور قیامت کا شور تھا کہ الامان! نکلتے نکلتے کمرے سے مکان کی دیوار گری اور میری آنکھوں کے سامنے میری جان سے زیادہ عزیز اور دلربا بیوی کے تن نازنین پر ایک دیوار کا حصہ گرا۔ ایک چیخ تو اس کے منہ سے نکلی اور بس۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ میرے اوپر پتھروں کی بارش ہوئی مگر میں نکل کر ایک میدان میں آگیا جو برابر کے وسیع مکان کے گرنے سے بن گیا۔ ایک شور قیامت برپا تھا اور چیخ پکار کے سبب کچھ سنائی نہ دیتا تھا اور زمین سچ مچ ایسی چیخ رہی تھی کہ ساری فضا ہل رہی تھی۔ زمین کے خوفناک ہونکارے کی صدا! ہاں! ہاں! ہاں! ہاں! ایک سناٹے کا شور تھا کہ چیخ جورعد کی ہولناک گرج میں جا کر معدوم ہو جاتی تھی۔

میں اور دو آدمی اور ایک جگہ محفوظ تھے۔ خدا کی پناہ! کیا ہیبت ناک سین تھا جب صبح ہوئی۔ زلزلے کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے تھیں۔ زلزلے کے خفیف جھٹکے برابر آ رہے تھے۔ سارا شہر کھنڈر پڑا تھا۔ میں نے ہمت کر کے جا کر دیکھا۔ خدا کی پناہ! میرا دل مسل کر رہ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری جان و ایمان، میری پیاری بیوی کی لاش پڑی تھی۔ اس کا نصف بدن کچل کر رہ گیا تھا۔ جس جانکنی سے اس کا دم نکلا ہوگا اس کے آثار اس کے چہرے پر تھے جو کبھی دلکشی اور حسن و جوانی کا مرکز تھا۔ جس پر کبھی عشق و محبت کا نور غلطاں رہتا تھا! ’’آہ‘‘ میرے سینے سے نکلی اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نوکر اور نوکرانی کی تلاش بیکار تھی۔ مگر میں اپنےمحبوب کی لاش کیسے چھوڑ سکتا تھا۔

جس طرح بن پڑا میں شام تک اپنی دلربا بیوی کی لاش نکال کر باہر لے گیا۔ مکان شہر کے کنارے ہی پرتھا۔ میں لاشے کو لیے بیٹھا ہی تھا کہ فوج کے گورے آئے اور میری مدد کی۔ اس محبت کی پڑیا کو روتے دھوتے اسی حالت میں میں نے اپنے ہاتھ سے فوجی امداد سے سپرد خاک کیا اور گھنٹوں سر پکڑے وہیں بیٹھا رہا کہ ہائے اس مایہ خوبی کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ پیش نظر جو کچھ بھی تھا اس کا عشر عشیر آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا۔ لاشوں کی بھرمار، زخمیوں کی چیخ پکار، الامان کیا سین تھا۔ میرا سر پھر گیا۔ الٰہی کدھر جاؤں اور کدھر نہ جاؤں۔ شکستہ قبر میرا مرکز تھی اور فوج کے گورے سپاہی کھانے کو دیتے تھے۔ لاوارثوں کا ایک جم غفیر تھا۔ کس لاپروائی سے لوگ لاشوں اور زخموں سے بے نیاز تھے! سوال یہ تھا کہ میں کہاں جاؤں۔ سب کا ہجوم فوج کے سپاہیوں کی طرف تھا اور جو ماں اور باپ تھے تو وہ تھے۔

پانچویں دن کا ذکر ہے کہ میں فوجی کیمپ سے قبر کی طرف جا رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے ایک شناسا چلے آ رہے ہیں۔ دماغ کا یہ حال کہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کون ہے اور کہاں دیکھا تھا۔ وہ خود رک گیا۔ سیاہ خضاب کی ہوئی داڑھی، ستواں ناک، گورا رنگ۔ آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی۔ مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں خود رک گیا اور حواس بجا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا، ’’السلام علیکم۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’آپ کون ہیں؟‘‘ وہ بولے، ’’میں۔۔۔ میں، وہ آپ۔۔۔ اسٹیشن پر۔۔۔‘‘

’’اوہو۔‘‘ میں نے پہچانتے ہوئے کہا۔ ’’معاف کیجیے گا۔ یہ کہہ کر میں چلا، یہ وہ حضرت تھے جو میری بیوی کو گھور رہے تھے۔ ایک دم سے وہ بولے، ’’سنئے تو۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے بتایا۔ جس کے سنتے ہی وہ دیوانہ وار چمٹ پڑے، ’’عائشہ کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’کون عائشہ؟‘‘ اس لیے کہ میری بیوی کا نام عائشہ نہیں تھا۔

’’میری بیٹی۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’میرا نام محمد خاں ہے۔۔۔‘‘

’’ارے!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ یہ واقعہ تھا کہ یہ میرے خسر تھے۔ میں نے سب حال کہا۔ معلوم ہوا کہ بدقسمت باپ نے بیٹی کو دیکھ لیا تھا اور چونکہ بیٹی اپنی ماں کی سچ مچ تصویر تھی لہٰذا غیر معمولی شباہت کے سبب بیچارے اپنی بیٹی کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور چاہتے کہ اچھی طرح دیکھ لیں اور اپنی بیوی کو شبہ مٹانے کی غرض سے لانے ہی والے تھے کہ میں نے آ کر لتاڑا۔ ان کی بیوی ویٹنگ روم میں بیٹھی تھیں۔

یا میرے اللہ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور میں نے اس نامراد ناشاد لڑکی کا قصہ غم سنایا، آہ! وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لئے کیسی تڑپتی تھی۔ باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ رہا تھا۔ میں نے اس قدر تکلیف دہ باتیں کاہے کو کبھی سنی ہوں گی۔ قبل اس کے کہ قبر پر لے چلوں، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی خوشدامن کے پاس چلوں! کون؟ وہی دلہن جس کو میں نے بیس برس پہلے دیکھا تھا۔ میں عرض نہیں کر سکتا کہ میرا کیا حال ہوا اور ان کا کیا حال ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چشم زدن میں ان کے چہرے پر بڑھاپا آگیا۔ میں نے یاد دلایا کہ میں کون ہوں اور غم کی ماری نے مجھے بیتاب ہوکر سینے سے لگا لیا، گھنٹوں وہ رویا کیں اور میں تسلی دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں بغیر اپنی بیٹی کو دیکھے زندہ نہیں رہ سکتی۔ سوال یہ تھا کہ اب کیسے ممکن ہے۔

رات کا سناٹا۔ ہو کا عالم تھا۔ قدم قدم پر قبریں تھیں اور دور تک میدان چلا گیا تھا۔ فاصلے پر ریلیف والوں کی چہل پہل لالٹینوں کی جنبشوں سےعیاں تھی۔ میں نے تیزی سے مٹی ہٹانا شروع کی۔ بیگار کا کام تھا۔ چشم زدن میں مٹی ہٹ گئی اور لکڑیاں ہٹا کر میں نے غار کی طرف دیکھا۔ باوجود تعفن کے میں اندر اتر گیا۔ میرے خسر بجلی کی ٹارچ ساتھ لائے تھے۔ وہ میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے قبر کے اندر روشن کی۔ چہرے پر روشنی ہوئی۔ بجلی کی تیز روشنی میں ایک دم سے میں نے اس نازنین کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کی ناک اور منہ پر چاول سے سفید سفید رکھے دکھائی دیے۔ غور سے جو دیکھتا ہوں تو الامان! میرے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ کیڑے ناک اور منہ میں بجبجا رہے تھے! میں بدحواس ہو کر ایک دم سے قبر کے باہر اچھلا ہوں کہ ایک چیخ کے ساتھ میری خوشدامن اندر گریں۔ لیکن میں جو سر پر پیر رکھ کر بھاگا ہوں تو میرے خسر نے روکا۔

میرے ہوش بجا نہ تھے اور میں بھاگ آیا اور ایسا بھاگا ہوں کے پچھلے مہینے جو ذرا ہوش ٹھیک ہوئے تو اپنے خسر سے ملنے گیا، ان کے وطن میں۔ دیکھوں تو چہرہ ہونق! مجھ سے ملے تو نہ دعا نہ سلام۔ بولے، ’’بل۔۔۔ لی!‘‘ میں نے غور سے دیکھا۔ نوکر نے کہا۔ دماغ خراب ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ میری خوشدامن جو قبر میں گریں تو پھر نہ نکلیں۔ مر چکی تھیں اور ماں بیٹیاں ایک ہی قبر میں سو گئیں۔ وہاں سے یہ لوٹے تو دیوانے ہوگئے۔

میں ٹھنڈی سانسیں لیتا واپس آیا۔ شکر ہے خدا کا زندہ ہوں، لیکن حال یہ ہے کہ چاول اگر کھانے میں آ جائیں تو معاً وہی قبر کا سین سامنے آ جاتا ہے۔ منہ سے ایک چیخ نکلتی ہےاور معلوم ہوتا ہے کہ کیڑے بجبجا رہے ہیں۔ ویسے دماغ ٹھیک ہے۔ دنیا کے کاروبار کرتا ہوں اور میری اس کمزوری کا کسی کو علم بھی نہیں، لیکن عرض نہیں کر سکتا۔ اپنی بیوی کی چند روزہ صحبت کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہ ہوگی۔ میرا اس کا ساتھ محض چند روز رہا، لیکن اپنی لافانی محبت کا نقش میرے دل پر چھوڑ گئی۔ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے وہ کیسی بیتاب تھی اور کیسی بے چین تھی! بس یہ سمجھ لیجیے کہ پانی کے باہر جو کبھی مچھلی دیکھ لیتا ہوں تو وہی حالت پیش نظر ہو جاتی ہے اور صدمہ مجھے اس کا ہے کہ حیف صد حیف وہ ناکام ہوگئی۔ جوانی اور ناکام محبت! میں سر دھنتا ہوں۔ جب اس امر پر غور کرتا ہوں کہ تقدیر کی خوبی تو دیکھیے کہ ماں باپ اور بیٹی تینوں ماہیٔ بے آب، ایک ہی جگہ جمع تھے اور مل نہ سکے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.