چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بجا کیا
چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بجا کیا
دل اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا
اب کھولیے کتاب نصیحت کو شیخ پھر
شب مے کدہ میں آپ نے جو کچھ کیا کیا
وہ خواب ناز میں تھے مرا دیدۂ نیاز
دیکھا کیا اور ان کی بلائیں لیا کیا
روز ازل سے تا بہ ابد اپنی جیب کا
تھا ایک چاک جس کو میں بیٹھا سیا کیا
دیکھے جو داغ دامن عصیاں پہ بے شمار
میں نے بھی جوش گریہ سے طوفاں بپا کیا
گم کردہ راہ آئے ہیں وہ آج میرے گھر
اے میری آہ نیم شبی تو نے کیا کیا
کیا پوچھتے ہو دست قناعت کی کوتہی
کچھ وا شب وصال میں بند قبا کیا
لذت ہی تھی کچھ ایسی کہ چھوڑا نہ صبر کو
کرتے رہے وہ جور و ستم میں سہا کیا
کیا شے تھی وہ جو آنکھ سے دل میں اتر گئی
دل سے اٹھی تو اشک کا طوفاں بپا کیا
پھر لے چلا ہے کل مجھے کیوں بزم یار میں
ایجاد اس نے کیا کوئی طرز جفا کیا
شیداؔ غزل پڑھو کوئی مجلس میں دوسری
اک پڑھ کے رہ گئے تو بھلا تم نے کیا کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |