چل دل اس کی گلی میں رو آویں
Appearance
چل دل اس کی گلی میں رو آویں
کچھ تو دل کا غبار دھو آویں
گو ابھی آئے ہیں یہ ہے جی میں
پھر بھی ٹک اس کے پاس ہو آویں
دل کو کھویا ہے کل جہاں جا کر
جی میں ہے آج جی بھی کھو آویں
پند گو میرا مغز کھانے کو
کاش آویں تو ایک دو آویں
ہم تو باتوں میں رام کر لیں انہیں
یہ بتاں اپنے پاس جو آویں
گو خفا ہی ہوا کرے پر ہم
اک ذرا اس کو دیکھ تو آویں
جب ہم آویں تو اپنے دل میں رکو
اور نہ آویں تو پھر کہو آویں
باز آئے ہم ایسے آنے سے
ہاں جو واقف نہ ہوویں سو آویں
کب تلک اس گلی میں روز حسنؔ
صبح کو جاویں شام کو آویں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |