چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
Appearance
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا
کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
شب فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
عدم میں ہستی سے جا کر یہی کہوں گا میں
ہزار حسرت زندہ کو گاڑ داب آیا
چکور حسن مہ چار دہ کو بھول گیا
مراد پر جو ترا عالم شباب آیا
محبت مے و معشوق ترک کر آتشؔ
سفید بال ہوئے موسم خضاب آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |