چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
Appearance
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
بہار باغ گو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم
عرق کی بوند اس کی زلف سے رخسار پر ٹپکی
تعجب کی ہے جاگہ یہ پڑی خورشید پر شبنم
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کی بیٹھتے رشک شرر شبنم
بھلا ٹک صبح ہونے دو اسے بھی دیکھ لیویں گے
کسی عاشق کے رونے سے نہیں رکھتی خبر شبنم
نہیں اسباب کچھ لازم سبک ساروں کے اٹھنے کو
گئی اڑ دیکھتے اپنے بغیر از بال و پر شبنم
نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہرگز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ پھر آئی نظر شبنم
نہ سمجھا دردؔ ہم نے بھید یاں کی شادی و غم کا
سحر خنداں ہے کیوں روتی ہے کس کو یاد کر شبنم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |