چند پرانی یادیں
میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترک موالات یا لاتعاون کی تحریک اوج شباب پر تھی اور اس کے اوج شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیئے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومت برطانیہ کے قصراقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔
سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سیدعبدالقادرشاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔
’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔
چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقرباخصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چارپانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کرکے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبارنویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہوچکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاًفوقتاً سالک صاحب کی صحت وعافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔
۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تادیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔
پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔
بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل ودماغ کا ریشہ ریشہ لاتعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیےٴ مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں ، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں ، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔
اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔
اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔
میں خود ماضی پر نظربازگشت ڈالتا ہوں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |