Jump to content

چڑیا چڑے کی کہانی

From Wikisource
چڑیا چڑے کی کہانی
by سجاد حیدر یلدرم
277935چڑیا چڑے کی کہانیسجاد حیدر یلدرم

(چڑے کی زبانی)

’’چوں چو چوں، چڑچوں، سب غلط، سب جھوٹ! چڑیا چڑے کی کہانی بہت انسانوں نے لکھی ہے، مگر قلم درکف دشمن است چوں، چو چوں، چوں، میری اور چڑیا کی لڑائی بہتان! چڑیا کا آنکھیں دکھنے کا بہانہ کرنا افترا، چوں چڑچوں، چوں چوں۔ آؤ اب میں تمھیں چند باتیں سناؤں کہ تمھاری آنکھیں کھلیں۔

حضرت انسان کو باتیں بنانی بہت آتی ہیں اور بس مجھ کو خدا نے مشاہدہ کی قوت عطا کی ہے۔ ویسے دیکھو تو میں بیوقوف بھولا بھالا ادھر ادھر پھدکتا نظر آتا ہوں، مگر میں دیکھتا سب کچھ ہوں، سمجھتا سب کچھ ہوں، کہتا بھی سب کچھ ہوں مگر تم نہیں سمجھتے۔

میں دیکھتا ہوں کہ خدا نے مجھے آزاد۔ آزادی طلب اور آزادی پسند مخلوق بنایا ہے، پرندوں اور چرندوں میں بہت سے ایسے ہیں کہ انسان سے بالکل نفرت کرتے ہیں اور جنگلوں میں انسان کے گھونسلوں سے دور جاکے رہتے ہیں۔ بعض بیوقوف ایسے ہیں کہ انسانوں میں انسان کے خادم ہوکے رہتے ہیں۔ مگر میں انسان کی کارستانیوں کو دیکھنے کے لیے شہر میں رہتا ہوں ان کے بڑے بڑے بھونڈے بھونڈے گھونسلوں میں اپنا پیارا پیارا، چھوٹا، چھوٹا گھونسلا بناتا ہوں۔ لیکن وہ پکڑ کے مجھے رکھنا چاہیں تو کبھی نہیں رہتا۔ پنجرے میں بند کرکے رکھنے کی بات دوسری ہے، یا میرے پر کاٹ دیں تو وہ اور ہی بات ہے ورنہ میں کبھی حضرت انسان سے مانوس نہیں ہوتا۔ میں انھیں خود غرض سمجھتا ہوں اور پرلے سرے کا ظالم۔

مگر مجھے اپنی کہانی سنانی ہے، ضمناً حضرت انسان سے بھی دو دو باتیں ہوجائیں گی (پھدک کے اور پروں کو پھلاکے) خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسا اچھا لباس دیا، ایک حد تک خوبصورت مگر نہ اتنا کہ انسان کی حریص نگاہوں کا ہدف بن جاؤں، جسم میں پھرتی دی کہ خوشی خوشی پھدکتا پھروں۔ چھوٹے پروں میں پرواز کی تیز طاقت دی کہ انسانوں کی رفیق ان کا ہم خصال، ان کی چہیتی بلی کی دستبرد سے بچوں۔ جسم ایسا موزوں دیا کہ بیان نہیں ہوسکتا نہ اتنا بڑا کہ شاہین اور باز مجھ پر جھپٹیں جیسے وہ کبوتر پر جھپٹتے ہیں، نہ اتنا چھوٹا کہ حشرات الارض کی طرح بالکل حقیر ہی ہوجاؤں اور کوئی مجھے دیکھے ہی نہیں۔

آواز کیسی اچھی، چوں، چوں، چڑچوں، چڑچوں۔آپ کے نزدیک اگر یہ خوش آیند نہ ہو تو نہ سہی اور میں خوش ہوں کہ آپ اسے پسند نہیں کرتے لیکن میرے ننھے دل کی خوشی اور طمانیت ظاہر کرنے کے لیے یہ بہت کافی ہے۔ چوں، چوں چڑچوں۔ شکر ہے خدا کا کہ اس نے بلبل کا ترانہ شیریں اور نالہ رنگین مجھے نہیں دیا، ورنہ صیاد اور قفس یہی میرے رفیق ہوتے۔ بیوقوف بلبل کو دیکھیے قفس میں بیٹھ کے بھی گاتی ہے اور اپنی اسارت پر درد انگیز نہیں، دل آویز نالےکرتی ہے اور نہیں سمجھتی کہ یہ اس کی اسیری کو اور بڑھاتے ہیں،

گل و گلچیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر

تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث

اگر ذرا بھی عقل ہوتی تو قفس میں پہنچتے ہی خاموش ہوجاتی اور اس وقت تک خاموش رہتی کہ یا قفس کھلتا یا موت آتی۔

میں اڑتا ہوں، پھدکتا ہوں، دانے چگتا ہوں۔ مگر الحمد للہ کسی کو آزار نہیں دیتا۔ خدا کی زمین سب کے لیے اور اس کے دانے سب کے لیے ہیں۔ یہ فلسفہ قدرت نے مجھے سمجھا دیا ہے اور اس لیے میں سب سے کہتا ہوں آؤ اور کھاؤ اور خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ جہاں بہت سے دانے ہوئے اور ہم اپنے تمام ہم جنسوں کے ساتھ پہنچے پھر وہاں اگر اور مخلوق چگ رہی تو میں معترض نہیں ہوتا، کبوتر ہوں، مینائیں ہوں، فاختائیں ہوں، سب کو صلائے عام ہے۔ سب ساتھ آئیں اور کھائیں میں اکل کھرا نہیں۔ تنہا خوری میری عادت نہیں۔

حضرت انسان کی بعض باتوں پر مجھے بیساختہ ہنسی آتی ہے،

قہہ، قہہ قہہ، چوں، چڑچوں، چڑچوں چوں کس قدر مغرور مگر سادہ لوح جنس ہے۔ میرا نام کنجشک خانگی رکھا ہے، یعنی جب انسان کے یہ گھونسلے جن میں وہ آج کل رہتے ہیں نہ تھے اور وہ بہائم کی طرح غاروں اور کھوؤں میں رہتے تھے تو میں نہ تھا؟ میرا گھونسلا نہ تھا؟ یا کیا اب میں سوائے ان گھونسلوں کے کسی اور جگہ اپنا گھونسلا نہیں بناتا؟ اب بھی چمن، صحرا، مرغزار، وادی، درخت، جھاڑی میرے گھونسلے کے لیے ویسے ہی موجود ہیں۔ جیسے انسان کے گھونسلے۔

میں تو ان کے بےہنگم موٹے موٹے گھونسلوں میں اپنا گھونسلا صرف اس لیے بناتا ہوں کہ یہاں رہ کر اس ریا کار مخلوق کی کرتوتوں کو اچھی طرح مشاہدہ کروں اور پھر اپنے ہم جنسوں میں بیٹھ کر ان خودبینوں، ان بیوقوف، مغروروں کے اوپر ہنسوں۔ اگر میں انھیں انسان خانگی کہوں تو زیادہ زیبا ہے۔

پھر ان کے گھونسلوں کا حال سنیے۔ ایک بڑا ہے ایک چھوٹا ہے، ایک اونچا ہے، ایک نیچا ہے۔ یہ کیوں؟ مساوات کیوں نہیں؟ اسے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کے گھونسلوں کے اندر کے خس و خاشاک، جنھیں انسان کیا کہتے ہیں بھول گیا، ہاں، میز کرسی فرش و فروش مختلف رنگ کے ہوں۔ کیوں کہ میں بھی کہیں سے تاگا کہیں سے تنکا، کہیں سے پتا لاکر گھونسلا بناتا ہوں، لیکن بڑائی چھوٹائی کیوں ہے؟ ہاں، ہاں خیال نہیں رہا تھا، اس کی وجہ معلوم ہوئی میں نے دیکھا ہے، چھوٹے گھونسلے والا انسان بڑے گھونسلے والے انسان کے سامنے سرجھکاکے، ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوتا ہے، اس کی خدمت کرتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ کس قدر بے غیرت مخلوق ہے میں نہ اپنے ہم جنس کی اور نہ کسی غیر جنس کی خدمت کرتا ہوں، اگر مار بھی ڈالو تو خدمت نہ کروں اور کیوں کروں، خڈا کے فضل سے ہم سب مساوی ہیں، کسی کو ایک دوسرے کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے نہ آرزو۔اپنے بال بچوں کی خدمت کے سوا، کسی کی خدمت کرنا، کسی کے گھونسلے پر جاکر دریوزہ گری کرنا عار کی بات ہے، ننگ کی بات ہے، مگر انسان۔۔۔ وہ مدعئی عقل، احمق، جو اپنے تئیں درس آموز قدرت خیال کرتا ہے، اس نکتے کو نہیں سمجھتا۔

ہائے ریاکار انسان! اس نے ایک لفظ نکالا ہے اور اس پر اسے بہت ناز ہے۔ کہتا ہے، ’’ سوائے میرے کسی میں حیا نہیں سب جاندار سوائے انسان کے بے حیا ہیں، حیا اور شرم کا احساس صرف مجھ میں ہے۔‘‘ اوڈینگ مارنے والی مخلوق! بس، بس۔ جسے تو حیا کہتا ہے وہ ریاکاری ہے۔

انسان چڑا، اور انسان چڑیا، کبوتر چڑا اور کبوتر چڑیادانہ بدلی کرنے اور پوٹا بھرانے میں ایک ہیں۔ میں نہیں جانتا انسان نے یہ عادت کبوتر سے لی ہے یا کبوتر نے انسان کی نقل اتاری۔ میں اس کی تحقیق نہیں کرسکتا، کیونکہ کبوتر اگرچہ پرندہ ہے، لیکن ایسا احمق، قدر حریت ناشناس پرندہ ہے کہ انسان سے بہت مانوس ہے اور ایسا کاہل ہے کہ اپنے لیے گھونسلا بھی نہیں بناتا، انسان اس کے لیے گھونسلا بناتا ہے اور یہ اس کے عوض میں اس کا درم ناخریدہ غلام بن جاتا ہے وہ اسے پکڑتا ہے، مگر پنجرے میں بند نہیں کرتا، پھر بھی یہ اس سے نفرت نہیں کرتا اور اڑ نہیں جاتا۔

لیکن کبوتر، گو اسے رات دن غٹرغوں کی ضربیں لگانے اور دانہ بدلی کرنے کے سوائے کوئی اور کام نہیں (صبح سے شام تک یہ حضرت دانہ بدلی کیا کرتے ہیں اور یہ خیال رہے کہ دانہ بدلی بچوں کا پوٹہ بھرنے کے لیے نہیں، اگر ایسا ہوتا تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی، کیوں کہ بیچارے بچے اڑ نہیں سکتے اور ان کا پوٹہ ماں باپوں ہی کو بھرانا پڑتا ہے، مگر کبوتریوں ہی بے فائدہ ایک دوسرے سے چونچ ملایا اور پھڑپھڑایا کرتے ہیں اور ایک منٹ دو منٹ نہیں گھنٹوں یوں ہی کیا کرتے ہیں) گو کبوتر کو اس کے سوا کوئی اور کام نہیں، تاہم۔ سادہ لوح اور صاف دروں مخلوق! وہ کبھی انسان کی طرح چھپ چھپ کے دانہ بدلی نہیں کرتا۔

مگر حضرت انسان! ان کا باوا آدم ہی نرالا ہے، دانہ بدلی میں یہ کبوتر سے کم نہیں، بلکہ بڑھے ہوئے ہی ہونگے، مگر وہی خود ایجاد حیا اور شرم کی پابندی سے اپنے گھونسلوں میں چھپ چھپ کے، لیکن پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ حیا شرم نہیں ہے بلکہ وہ ریاکاری ہے، جو گھونسلوں میں وہ چوری چھپے کرتے ہیں جسے وہ علانیہ نہیں کرسکتے۔

کل ہی کی تو بات ہے؟ یہ تمھارے پڑوس کے گھونسلے میں کئی انسان چڑیا اور چڑے بیٹھے تھے، میں اوپر چھت میں تھا، وہ اپنی زبان میں چوں چوں کررہے تھے، میں اپنی زبان میں چوں چوں کررہا تھا، آہستہ آہستہ اس گھونسلے کے ایک حصے میں سے جسے تم کمرہ کہتے ہو اور سب انسان تو چلے گئے اور بس ایک انسان چڑا اور ایک انسان چڑیا یا تمھاری زبان میں میاں بی بی رہ گئے۔ اب انھوں نے دانہ بدلی شروع کردی اور پھر وہی پیار محبت کی باتیں ہونے لگیں، تم کہوگے کہ اس میں ریاکاری کی کونسی بات ہوئی؟ سنیے، جب ان کے ہم جنس بیٹھے تھے، اس وقت انھوں نے یہ باتیں کیوں روانہ رکھیں؟ اگر کہو شرم کی وجہ سے، بہت خوب! تو بعد میں بھی تو میں کمرے میں موجود تھا، پہلے مجھے خیال ہوا تھا کہ شاید انھوں نے مجھے دیکھا نہیں، اس لیے میں اڑ کے اور پھڑ پھڑکرکے، ان کے قریب میز پر جا بیٹھا، کرسی پر جا بیٹھا، وہاں سے اڑکے دیوار میں جو تصویر لگی ہوئ تھی اس کے چوکھٹے پر جا بیٹھا، تب بھی ان پر کچھ اثر نہیں، اپنے کام سے کام آخر میں نے زور سے چلانا شروع کیا، ’’میں یہاں ہوں، میاں یہاں ہوں، چوں، چوں، چوں‘‘ مگر بے حیائی دیکھیے، مجھے دیکھ کے دونوں نے ہنسنا شروع کردیا، مجھے نہایت غصہ آیا اور میں ان کو گالیاں دیتا ہوا، پھر سے کمرے سے باہر اڑگیا۔ فرمائیے! آپ ہی فرمائیے، آپ اسے کیا کہتے ہیں حیا یا ریاکاری؟

اسی بات پر کیا منحصر ہے، حضرت انسان کے ڈوھنگوں سے میں خوب واقف ہوں کوئی مجھ سے پوچھے۔ کوئی لاکھ بار تو میں نے انسان چڑے کو انسان چڑیا کے سامنے ادعائے وفاداری کرتے سنا ہوگا۔

’’آہ! میں تمھیں چاہتا ہوں، تمھارے سوا حور بھی ہو تو اس پر آنکھ نہ ڈالوں۔‘‘ بیچاری بھولی بھالی چڑیا اسے یقین کرتی ہے اور محبت کی آنکھوں سے۔۔۔ ان آنکھوں سے جن سے آنسو اور احسان مندی ٹپکتی ہوتی ہیں۔ اسے دیکھتی ہے یہ ایسا منظر تھا کہ شروع شروع میں اس سے بہت متاثر ہوتا تھا لیکن میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی انسان چڑا دوسرے دن دوسرے گھونسلے میں دوسری چڑیا سے۔ پہلی چڑیا کی نظروں سے دور۔ کہہ رہا ہے، ’’آہ! میں تمھیں چاہتا ہوں، تمھارے سوا حور بھی ہوتو اس پر آنکھ نہ ڈالوں۔‘‘ اور یہ بیچاری معصوم چڑیا بھی اس دھوکے باز چڑے کے پھندے میں پھنس جاتی ہے اور اپنا محبت بھرا دل اس کے سپرد کردیتی ہے۔

تیسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ وہی چڑا ایک اور گھونسلے میں ایک تیسری چڑیا سے کہہ رہا ہے ’’آہ! میں تمھیں چاہتا ہوں، تمھارے سوا حور بھی ہو تو اس پر آنکھ نہ ڈالوں۔‘‘ اور یہ تیسری تشنہ محبت بھی ان باتوں پر یقین کرکے، دل ہار بیٹھتی ہے۔ آخر کار ایک دن آتا ہے کہ تینوں کو حقیقت معلوم ہوتی ہے، اور یا کنوؤں سے چند جان باختہ انسان چڑیوں کی لاشیں نکلتی ہیں، یا افیم انھیں ابدی نیند سلا دیتی ہے۔

دل چاہتا ہے اس ناپاک مخلوق کی ٹھونگیں مار مار کے مار ڈالوں۔ یہاں چڑیا بول اٹھی، ’’چڑے کا قطع کلام تو ہوتا ہے مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ انسان چڑیا کا بھولا پن یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے۔ میرا چڑا۔ میں اس کے سامنے کہتی ہوں کچھ ڈرتی تھوڑا ہی ہوں۔ رات دن مجھ سے کہا کرتا ہے، ’’تم بیحد خوبصورت ہو، تمھاری برابر دنیا میں کوئی خوبصورت نہیں۔‘‘ مگر خوشامد سے میرا دماغ نہیں چل جاتا، میں اس کان سنتی ہوں اور اس کان اڑا دیتی ہوں کیوں کہ گو اس کی نظروں میں خوبصورت ہوں لیکن حقیقت میں خوبصورت نہیں۔ اسے میں اچھی طرح جانتی ہوں مگر کہیں آدم نے حوا سے کہہ دیا تھا کہ ’’تم بہت خوبصورت ہو۔‘‘ بس وہ دن اور آج کا دن کہ انسان چڑیا کے سامنے سے آئینہ نہیں ہٹتا، آئینہ نہیں تو آرسی ہے، آرسی نہیں تو پانی میں اپنا عکس دیکھا جاتا ہے اور اپنے عکس کو دیکھ دیکھ کے خود ہی جھوما کرتی ہے اور مارے غرور کے زمین پر قدم نہیں رکھتی یہ نہیں سمجھتی کہ یہ سب چڑے کی خوشامد کی باتیں ہیں اور بس۔

پھر گھر میں بیٹھی، چڑے کو نیک اور اپنا عاشق سمجھا کرتی ہے اور چڑا اس کی غیبت میں رنگ رلیاں مناتا ہے۔ یہ نہیں سمجھتی کہ ’’مال عرب پیش عرب‘‘ ہی رہے تو اچھا ہے۔ میں اس نکتہ کو سمجھتی ہوں اور یہی وجہ ہے میں ہر وقت اپنے چڑے کے ساتھ ہوں، یہاں تک کہ تدارک معیشت میں بھی برابر کی شریک ہوں، میں چڑے کو فخر وتفوق کا موقع ہی نہیں دیتی۔ چڑے نےپھر کہنا شروع کیا ’’اب مجھے دیکھیے یہ کچھ غرور اور ستائش کےطور پر نہیں کہتا اور نہ اپنی پیاری چڑیا کو سنانے کے لیے کہتا ہوں، بلکہ واقعہ بیان کرتا ہوں کہ میں ایک۔۔۔ بس ایک چڑیا کو دل دیتا ہوں، ایک کعبہ کا طواف کرتا ہوں، ایک دیوی کے گرد پھرتا ہوں، میں ایک چڑیا کو دل دیتا ہوں اور اس کے ساتھ پیمان وفا باندھتا ہوں اور اس پیمان کو نہیں توڑتا، مگر یہ کہ موت آکے اسے توڑے۔

میں ایک چڑیا کو دل دیتا ہوں اور اس کو پورا اختیار دیتا ہوں کہ میری کل حرکتوں کی نگرانی کرے، میں جہاں جاؤں جس محفل میں پہنچوں، میرے ساتھ ہو، لڑائی لڑوں تو میرا دل بڑھائے چہکوں تو میرا نغمہ سنے۔ انسانوں کی طرح ہم علیحدہ علیحدہ زندگی بسر نہیں کرتے۔

میں (سچ کہنا چاہیے) کبھی کبھی اپنے پر دوسری چڑیا کے لیے بھی پھیلا دیتا ہوں، لیکن یہ محض شوخی اور کلیل ہوتی ہے اس سے کوئی خاص ارادہ مقصود نہیں ہوتا اور میری چڑیا بھی اسے جانتی ہے، اس لیے وہ نہ ناراض ہوتی ہے اور نہ میری طرف سے اس کے دل میں شبہ بیٹھتا ہے۔

لو تم سے باتیں کرنے میں، میں بھول ہی گیا کہ مجھ پر فرائض پدری ہیں، میں انسان باپوں کی طرح نہیں کہ اکثر اپنے عیش میں اپنے بال بچوں کا خیال تک نہیں کرتے، بلکہ بعض تو ہمیشہ کے لیے انھیں چھوڑ دیتے ہیں، نان ونفقہ بھی نہیں دیتے۔ میں ایسا بے غیرت نہیں۔ جب ان بچوں کو دنیا میں لانے کا میں ہی باعث ہوا ہوں تو جب تک خود نہ اڑسکیں میں خود بھوکا رہوں گا لیکن ان کا پوٹہ بھروں گا۔ بڑی دیر ہوگئی وہ چونچ کھولے انتظار میں بیٹھے ہونگے۔ ہاں ذرا مجھے دانے یا روٹی کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بناکر تو ڈال دو۔

آہا! تم نے میری خواہش پوری کی۔ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا تمھارے اور تمھارے بال بچوں کے پوتوں کو بھی ہمیشہ بھرا رکھے۔

لو اب جاتے ہیں،

پھر ملیں گے اگر خدا لیا‘‘

اور یہ کہتے ہوئے دونوں پھر سے اڑگئے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.