چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرو
چھپ کے گھر غیر کے جایا نہ کرو
ربط ہر اک سے بڑھایا نہ کرو
اے بتو بال بنایا نہ کرو
سانپ ہاتھوں پہ کھلایا نہ کرو
سبزۂ خط کو دکھایا نہ کرو
طوطے ہاتھوں کے اڑایا نہ کرو
رند غم ہجر کا کھایا نہ کرو
جان کو اپنی کھپایا نہ کرو
تذکرہ غیر کا لایا نہ کرو
جلے کو اور جلایا نہ کرو
منہ کو غنچے کے چڑایا نہ کرو
گل کو کھلی میں اڑایا نہ کرو
مدعا جو ہو زباں سے کہو صاف
حرف مطلب کو چبایا نہ کرو
اپنا سمجھو مرا دل شوق سے لو
میری جاں اپنا پرایا نہ کرو
مجھ کو بھی یاد ہیں فقرے صاحب
جوڑ بندے پہ بنایا نہ کرو
خود میں دم باز ہوں ہے دھیان کدھر
مجھ کو فقروں میں اڑایا نہ کرو
ہوش میں آؤ پری زادو تم
مجھ کو دیوانہ بنایا نہ کرو
ہم لہو تھوک کے مر جائیں گے
لالی ہونٹوں پہ جمایا نہ کرو
لوگ سودائی ہوئے جاتے ہیں
دھڑی مسی کی لگایا نہ کرو
ہو نہ انگشت نما مثل ہلال
جان نوچندی میں جایا نہ کرو
اے بتو اپنے خدا کو مانو
کعبۂ دل کو تو ڈھایا نہ کرو
میں تو حاضر ہوں وفاداری میں
تم کرو مجھ سے وفا یا نہ کرو
دھوکے دریا میں بھبوکا سے ہاتھ
آگ پانی میں لگایا نہ کرو
مجھ سے خلوت کی ملاقات رہے
روز جلوت میں بلایا نہ کرو
واسطے بندے کے بد نامی ہے
جان صحبت میں بٹھایا نہ کرو
دیکھنے والوں کی جانب دیکھو
اس طرح آنکھ چرایا نہ کرو
شرم بے جا ہے برا کرتے ہو
اچھی صورت کو چھپایا نہ کرو
جاؤ دریا پہ نہ تم غیر کے ساتھ
ایسے مینڈھے تو لڑایا نہ کرو
دانت پیسا نہ کرو عاشق پر
جان یوں ہونٹھ چبایا نہ کرو
چار دن وصل میں ہنس لینے دو
آٹھ آٹھ آنسو رلایا نہ کرو
لوگ بد وضع کہیں گے تم کو
میلے ٹھیلے کبھی جایا نہ کرو
جان کس کام کا یہ بھولا پن
دم میں ہر ایک کے آیا نہ کرو
عاشقوں کی بری گت ہوتی ہے
تم ستاری تو بجایا نہ کرو
حضرت دل یہی فرماتے ہیں
عشق معشوق چھپایا نہ کرو
خوش نہیں آتا اگر میرا کلام
تو غزل بھی مری گایا نہ کرو
تھامو اب قبضۂ شمشیر اے رندؔ
کوفت پر کوفت اٹھایا نہ کرو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |