ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
Appearance
ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
دے دیں کفن جو یار ڈبو کر شراب میں
مانے نہ مانے کوئی پہ اتنا کہیں گے ہم
ہے ذوق بے خودی تو مقرر شراب میں
مانیں جو میری بات مریدان بے ریا
دیں شیخ کو کفن تو ڈبو کر شراب میں
کس کے خرام ناز سے ملتی ہے موج جام
برپا ہے ایک فتنۂ محشر شراب میں
وہ رند بادہ کش ہوں کہ مائلؔ پس فنا
جلوے نے ترے قہر اٹھایا نقاب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |