Jump to content

ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی

From Wikisource
ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
by مرزا اظفری
316435ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانیمرزا اظفری

ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
تان کی جان مگر تم نے نہ جانی جانی

ہل گئے مل گئے انجانوں سے جوں جان پہچان
پر مری قدر ذری تم نہ پہچانی جانی

لگ چلے جو کہ رقیبوں نے لگایا تم کو
سانچی اور جھوٹی کوئی بات نہ چھانی جانی

جو کہا میں نے نہ تم نے کبھی دھر کان سنا
بات کیا ایسی مری تم نے دوانی جانی

مان نے تیری تو مارا ہمیں اب تو من جا
یہ ہٹیلا نہیں دیکھا کوئی مانی جانی

جاں کنی میں تو ذرا آ کے دکھاؤ دیدار
جان مر جاؤں گا کہتا ہی میں جانی جانی

رات دن یہ جو سلوک ہم سے کیا کرتے ہو
دل میں کیا جانیے کیا تم نے ہے ٹھانی جانی

صرف کی اپنی ترے عشق میں جانی سب عمر
اظفریؔ نے نہ بڑھاپا نہ جوانی جانی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.