ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
Appearance
ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
تان کی جان مگر تم نے نہ جانی جانی
ہل گئے مل گئے انجانوں سے جوں جان پہچان
پر مری قدر ذری تم نہ پہچانی جانی
لگ چلے جو کہ رقیبوں نے لگایا تم کو
سانچی اور جھوٹی کوئی بات نہ چھانی جانی
جو کہا میں نے نہ تم نے کبھی دھر کان سنا
بات کیا ایسی مری تم نے دوانی جانی
مان نے تیری تو مارا ہمیں اب تو من جا
یہ ہٹیلا نہیں دیکھا کوئی مانی جانی
جاں کنی میں تو ذرا آ کے دکھاؤ دیدار
جان مر جاؤں گا کہتا ہی میں جانی جانی
رات دن یہ جو سلوک ہم سے کیا کرتے ہو
دل میں کیا جانیے کیا تم نے ہے ٹھانی جانی
صرف کی اپنی ترے عشق میں جانی سب عمر
اظفریؔ نے نہ بڑھاپا نہ جوانی جانی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |