کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
Appearance
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری ہوش ہے نہ مستی ہے
کیا بتاؤں کیا ہوں میں قدرت خدا ہوں میں
میری خود پرستی بھی عین حق پرستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے خاک ہے مگر کیسی
لیجئے تو مہنگی ہے بیچئے تو سستی ہے
خضر منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے
کیا کہوں سفر اپنا ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلے کی پستی ہے
حسن بے تماشا کی دھوم کیا معما ہے
کان بھی ہیں نامحرم آنکھ بھی ترستی ہے
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر سادگی برستی ہے
ترک لذت دنیا کیجئے تو کس دل سے
ذوق پارسائی کیا فیض تنگ دستی ہے
دیدنی ہے یاسؔ اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |