Jump to content

کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے

From Wikisource
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
by یاس یگانہ چنگیزی
300350کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہےیاس یگانہ چنگیزی

کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے

بے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری ہوش ہے نہ مستی ہے

کیا بتاؤں کیا ہوں میں قدرت خدا ہوں میں
میری خود پرستی بھی عین حق پرستی ہے

کیمیائے دل کیا ہے خاک ہے مگر کیسی
لیجئے تو مہنگی ہے بیچئے تو سستی ہے

خضر منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے

کیا کہوں سفر اپنا ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلے کی پستی ہے

حسن بے تماشا کی دھوم کیا معما ہے
کان بھی ہیں نامحرم آنکھ بھی ترستی ہے

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر سادگی برستی ہے

ترک لذت دنیا کیجئے تو کس دل سے
ذوق پارسائی کیا فیض تنگ دستی ہے

دیدنی ہے یاسؔ اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.