کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے
کام دیوانوں کو شہروں سے نہ بازاروں سے
مست ہیں عالم ایجاد کے نظاروں سے
زلفیں بل کھاتی ہیں یا جھومتی ہے کالی گھٹا
بارش نور ہے ہر سو ترے رخساروں سے
واں نقاب اٹھی یہاں چاندنی نے کھیت کیا
کٹ گئی ظلمت شب چاند سے رخساروں سے
دیکھتا رہ گیا آئینہ کسی کی صورت
زلفیں اٹکھیلیاں کرتی رہیں رخساروں سے
دیکھیں کس طرح بسر ہوتے ہیں ایام جنوں
یاں تو ہے سامنا ہر دم انہیں غم خواروں سے
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اور امید کوئی کیا کرے غم خواروں سے
کشش دشت بلا حب وطن دامن گیر
آج گھر چھٹتا ہے پہلے پہل آواروں سے
مرتے دم تک تری تلوار کا دم بھرتے رہے
حق ادا ہو نہ سکا پھر بھی وفاداروں سے
بے دھڑک پچھلے پہر نالہ و شیون نہ کریں
کہہ دے اتنا تو کوئی تازہ گرفتاروں سے
موسم گل نہیں پیغام اجل تھا صیاد
دیکھ خالی ہے قفس آج گرفتاروں سے
کیا برا حال ہے انگڑائیاں لیتے لیتے
ساقیا ناز اب اچھا نہیں مے خواروں سے
کانپتے ہاتھوں سے ساغر کو بچایا تو بہت
کیا کہیں خود ہی نہ سنبھلا گیا مے خواروں سے
سر کو ٹکرا کے گیا ہے کوئی صحرا کی طرف
خون ثابت ہے ابھی شہر کی دیواروں سے
ایڑیاں وادئ غربت میں رگڑتے ہی رہے
دور کھنچتی گئی منزل وطن آواروں سے
کان میں پچھلے پہر آئی اک آواز حزیں
اب تو غم خوار بھی دق ہیں ترے بیماروں سے
جھلملانے لگا جب یاسؔ چراغ سحری
پھر تو ٹھہرا نہ گیا ہجر کے بیماروں سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |