کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
Appearance
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے
نا گوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں
زہر پی کر مزۂ شیر و شکر لیتا ہے
ہالے میں ماہ کا ہوتا ہے چکوروں کو یقیں
کبھی انگڑائی جو وہ رشک قمر لیتا ہے
وہ زبوں بخت شجر ہوں میں کہ دہقاں میرا
پیچھے بوتا ہے مجھے پہلے تبر لیتا ہے
منزل فقر و فنا جائے ادب ہے غافل
بادشہ تخت سے یاں اپنے اتر لیتا ہے
گنج پنہاں ہیں تصرف میں بنی آدم کے
کان سے لعل یہ دریا سے گہر لیتا ہے
نظر آ جاتا ہے اے گل جسے رخسار ترا
پھولوں سے دامن نظارہ وہ بھر لیتا ہے
عقل کر دیتی ہے انساں کی جہالت زائل
موت سے جان چھپانے کو سپر لیتا ہے
یاد رکھتا ہے عدم میں کوئی ساغر کش اسے
ہچکیاں شیشۂ مے شام و سحر لیتا ہے
غیرت نالہ و فریاد نہ کھو اے آتشؔ
آشنا کوئی نہیں کون خبر لیتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |