کبھی یہاں لیے ہوئے کبھی وہاں لیے ہوئے
کبھی یہاں لیے ہوئے کبھی وہاں لیے ہوئے
پھری ہے جستجو تری کہاں کہاں لیے ہوئے
زمین دل کی خاک ہے صد آسماں لیے ہوئے
تنزلات عشق میں ترقیاں لیے ہوئے
دل و جگر لیے ہوئے متاع جاں لیے ہوئے
کسی کا ناوک نظر تلاشیاں لیے ہوئے
اسی گلی سے آئی ہے شمیم زلف لائی ہے
نسیم صبح آئی ہے تسلیاں لیے ہوئے
مرے غم نہاں میں ہے نوید عشرت آفریں
بہار ہی بہار ہے مری خزاں لیے ہوئے
ہماری آہ کے شرر ہمیں کو پھونکنے لگے
ہوا کے جھونکے آئے ساتھ بجلیاں لیے ہوئے
تری گلی میں ماہ رو پڑے ہوئے ہیں چار سو
تمام ذرے خاک کے تجلیاں لیے ہوئے
نہ قرب گل کی تاب تھی نہ ہجر گل میں چین تھا
چمن چمن پھرے ہم اپنا آشیاں لیے ہوئے
نگاہ اہل راز میں حقیقت و مجاز میں
ہماری بے نشانیاں ترا نشاں لیے ہوئے
اٹھے ہیں حشر میں فدائے کوئے یار اس طرح
جبیں میں سجدے دل میں یاد آستاں لئے ہوئے
نہ دل ملے گا بیدمؔ اور نہ دل کی حسرتیں کہیں
کہ گم ہوا ہے یوسف اپنا کارواں لیے ہوئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |