Jump to content

کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن

From Wikisource
کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن
by شیخ قلندر بخش جرات
296716کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بنشیخ قلندر بخش جرات

کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن
لگتا نہیں ہے جی کہیں لگا لگائے بن

جب تک نہ بے قرار ہوں پڑتا نہیں قرار
آتا نہیں ہے چین ہمیں تلملائے بن

بے آہ و نالہ منہ سے نکلتی نہیں ہے بات
حیران بیٹھے رہتے ہیں آنسو بہائے بن

زنداں لگے ہے گھر جو کسی کا نہ ہوں اسیر
آتے نہیں بہ خود کہیں ہم آئے جائے بن

دیوانے گر نہ ہوں تو پری رو نہ دیکھیں سیر
بگڑے ہے بات حال پریشاں بنائے بن

جنبش نہ دست و پا میں ہو بے شورش جنوں
افسردہ طبع رہتے ہیں دھومیں مچائے بن

گر ہو نہ درد عشق تو بے درد ہم کہائیں
کچھ لطف گفتگو ہی نہیں ہائے وائے بن

کیا جوش طبع ہو نہ مئے عشق گر پئیں
کچھ کیفیت نہیں ہے یہ پیالہ پلائے بن

گر بر میں ہو نہ کوئی تو پہلو تہی رہے
کیا بیٹھنا ہے زانو سے زانو بھڑائے بن

کوئی نہ دے دکھائی تو کیا خاک دیکھیے
رہتے اسیر غم ہیں کسی کے بلائے بن

افکار سیکڑوں ہوں اگر ہو نہ فکر عشق
وارستگی کہاں ہے کہیں جی پھنسائے بن

قاتل سے گر نہ ملیے تو جرأتؔ ہماری کیا
جوں گل شگفتہ ہو نہ کوئی زخم کھائے بن


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.