کب تلک جی رکے خفا ہووے
Appearance
کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے
کر نمک سود سینۂ مجروح
جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے
کاہش دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے
چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے
بیکلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے
مر گئے ہم تو مر گئے تو جی
دل گرفتہ تری بلا ہووے
عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے
پھر نہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خدا ہووے
نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میرؔ مر رہا ہووے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |