کثرت سے داغ ہیں جو غم عشق خال میں
Appearance
کثرت سے داغ ہیں جو غم عشق خال میں
تل بھر جگہ نہیں ہے دل پر ملال میں
افشائے راز عشق جو اشکوں نے کر دیا
ڈوبا ہوا ہے دل عرق انفعال میں
رہتی نہیں ہے زلف پریشاں بناؤ سے
بکھری ہے اس لیے کہ پھنسے کوئی جال میں
اے جان دل کے گور غریباں میں آئیے
سب آرزوئیں دفن ہیں گرد ملال میں
دل کو جو یاد جلوۂ عارض ہے دم بہ دم
روشن ہے شمع حسن مکان خیال میں
کیا دل دکھاؤ گے جو مزہ درد کا نہیں
دم بھر تو بیٹھو آ کے دل پر ملال میں
ہم کو ہجوم غم بھی غنیمت ہوا نظرؔ
سب عیب دل کے چھپ گئے گرد ملال میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |