Jump to content

کرکٹ میچ

From Wikisource
319603کرکٹ میچمرزا عظیم بیگ چغتائی

(۱)

کرکٹ میچ پر آج کل برسات کے موسم میں کوئی مضمون لکھنا ’’بے فصلی‘‘ سی چیز ہے۔ بالخصوص جب کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کرکٹ کے واہیات میچوں کا حال اور ان کی خبریں چھاپتے چھاپتے اخبار والوں نے پبلک کو پست کر دیا اور پھر اب تو ایم سی سی والے بھی ہندوستان سے ’’آؤٹ‘‘ ہو گئے، ورنہ بہت ممکن ہے کہ یہ مضمون اگر کچھ پہلے شائع ہوتا تو ہمارے ہندوستانی کھلاڑی کرکٹ کا ایک ایسا گر جان جاتے کہ ایک ہی مقابلے میں ایم سی سی کی عقل راہ پر آ جاتی۔

بہت ممکن ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ یہ ایک مضمون نگار غریب کیا جانے کرکٹ اور کرکٹ کی باتیں! مگر عرض ہے، اکثر میدان کار زار میں لٹھ کام آتے ہیں اور تلواریں دھری رہ جاتی ہیں اور پھر میں کرکٹ میں ایسا گمنام یا اناڑی بھی تو نہیں۔ مجھے تسلیم ہے کہ اسکول کی ٹیم کے کپتان سے ہمیشہ پیش از پیش رہا۔ کالج میں پہنچ کر وزیرعلی اور نذیر علی کا کلاس فیلو رہا۔ سیکڑوں میچ دیکھ ڈالے۔ رن گن ڈالے، امپائروں کی غلطیاں نکالیں، ولایتی بلوں میں خرابیاں نکالیں، بکہ ایک تو چرا لیا۔ علی گڑھ میں جب ایم سی سی والے آئے تو گلیکن کے سامنے ایک میچ کا چیلنج دیا اور اگر منظور کر لیتے تو اپنی شکست کو عمر بھر نہ بھولتے۔ قصہ مختصر کرکٹ کی فضا میں رہا، بڑھا اور پلا اور محض اپنی جدت سے کرکٹ میں وہ ترکیب دریافت کی جس سے میچ ہارنے کا امکان ہی جاتا رہا۔ ایک نہیں اسی ترکیب سے دس میچ کھیلے اور جیتے ہیں، خود ہم نے!

(۲)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمارے کپتان صاحب دوڑ دھوپ کر کے مل ملا کر کسی نہ کسی طرح ایک میچ گوروں سے طے کر آئے۔ یہ گورے تو ویسے بھی میچ کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اس میچ میں کپتان صاحب نے نہ تو ہمیں کھلاڑیوں میں شامل کیا اور نہ ’’مد فاضل‘‘ میں رکھا جو ہر جگہ گھس گھس کر میچ دیکھتے۔ رن گنتے، بلے تولتے یا اور طرح خصوصیت جتاتے اور ریفرشمنٹ کے انتظامات میں بھی پیش از پیش ہوتے ہیں۔ گوروں کی فوج کی طرف سے میچ کا خاصا انتظام تھا۔ حد کہ یہ ایک خیمے میں ریفرشمنٹ کے بہانے سے نہ معلوم کیا کیا یار لوگ ’’ریشم‘‘ اور ’’کلابتون‘‘ اڑایا کیے اور ہم ’’ناتوان‘‘ دیکھا کیے! یعنی ہم اور ہمارے دوست واقعی دور ہی سے معمولی میچ دیکھنے والوں کی طرح میچ کو سچ مچ ’’دیکھتے‘‘ ہی رہ گئے۔

نتیجتاً ہمارے اسکول کو دوڑتے دوڑتے اور ’’پدتے پدتے‘‘ سویرا ہو گیا۔ کھلاڑیوں کا گوروں نے فشار نکال دیا۔ ایک سے ایک تگڑا وہاں گورا موجود، ایسا کہ ادھر گیند پہنچی نہیں کہ اس نے ’’بنی‘‘ کر دی۔ قصہ مختصر لڑکوں کو رپٹا مارا، جتنا کھلایا تھا سب وصول کر لیا۔ پھر عنایت ہی سمجھیے جو گوروں نے بخش دیا، کیونکہ ان کے رن اتنے ہو گئے تھے کہ آگے کھیل کی ضرورت ہی نہ رہی۔ کئی وکٹ اور بہت سے رنوں سے اسکول کی ٹیم ہاری۔ میچ کا انتظام اور ریفرشمنٹ وغیرہ کا نظام ایسا نہ تھا کہ اس کی دلکش اور سہانی یاد کسی نیک اور پاک دل طالب علم کے معصوم دل سے محو ہو سکے۔ چنانچہ ہمیں بھی فکر پڑا کہ کسی طرح ان گوروں سے میچ طے کریں۔

چنانچہ ہم اس تاک میں تھے کہ ایک روز اسی رجمنٹ کا گورا ہمارے بنگلے کی طرف نکل کر آیا۔ یہ رجمنٹ ہائی لنڈرز کا تھا۔ اس گورے کے ساتھ ایک کتا تھا اور ہمارے یہاں بلا مبالغہ اچھے سے اچھے کتے موجود تھے اور کتوں کے ڈاکٹر اور قدردان نہیں بلکہ عاشق زار بھائی صاحب بھی موجود۔ کچھ تو کتا پسند اور کچھ گورا پسند، لہٰذا گورے صاحب کو روکنے کا بہانہ ہاتھ آیا۔ نتیجہ یہ کہ بہت جلد قبلہ گورے صاحب بنگلے کے مختصر لان پر بیٹھے کتوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ یہاں اپنا یہ حال کہ باتیں تو کتوں کی ہو رہی ہیں مگر جی ہے کہ پڑا ہے میچ کے ریفرشمنٹ میں۔ گورے صاحب کو کرکٹ کے ڈول پر لانا چاہا تو معلوم ہوا وہ کرکٹ کے قطعی شوقین نہیں۔ سوڈا برف سے ان کی خاطر خواہ مدارات کی۔ ان کے یہاں کتے دیکھنے آنے کا وعدہ کیا اور یہ بھی بر سبیل تذکرہ عرض کردیا کہ میچ کا معاملہ بھی وہیں طے کرلیں گے۔

دوچار روز بعد رجمنٹ میں جو پہنچے تو یا تو اس بیہودہ گورے کا ہم نام بھول گئے یا دس بیس گورے اسی نام کے اور موجود تھے۔ پتہ لگا کر پہنچے جو سہی تو اسی نام کا ایک سخت بدتمیز گورا ملا، جو ہمیں دیکھتے ہی آنکھیں مٹکانے لگا اور انگلیاں نچانے لگا اور اس کے ساتھی لگے قہقہہ اڑانے۔ پھر آگے ہمت نہ پڑی جو اس منحوس کی تلاش کے سلسلہ میں کسی اور بھی ’’خراب‘‘ گورے سے ملتے۔ باضابطہ ٹائپ شدہ چیلنج ایک فرضی کلب کے کپتان کی طرف سے لائے تھے کیونکہ کسی رجمنٹ سے میچ طے کرنا معمولی بات نہیں۔ گھنٹوں ادھر سے ادھر دوڑے، درجنوں افسروں اور نہ معلوم کن کن سے ملے اور نتیجہ یہ کہ جواب باصواب نہ ملا۔ خط پر پتے چھوڑ کر آئے کہ اس پتہ پر ہم مطلع ہوں۔

بات گئی گزری سی ہوگئی تھی کہ دس پندرہ دن بعد ایک اطلاع نامہ آیا کہ ہم فلاں دن میچ کے لیے تیار ہیں۔ فوراً ہم پھر رجمنٹ پہنچے اور میچ منظور کر لیا، ایک شرط پر۔ وہ یہ کہ کھیل کا سامان ہماری دوسری ٹیم اسی روز ایک اور جگہ لے جائے گی، لہٰذا سامان وغیرہ آپ کا ہی رہے گا۔ در اصل یہاں یہ حال تھا کہ ٹوٹا بلا چھوڑ ’’اسکورنگ‘‘ پنسل تک نہ تھی، گوروں کے یہاں قاعدہ ہے کہ روز تو وہاں قواعد پریڈ اور اسی قسم کے فضول دھندے رہتے ہیں۔ میچ کے لیے خاص طور پر دن نکالا جاتا ہے۔ ساری رجمنٹ کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم سے وقت پر پہنچنے کا بھی اشارہ کردیا گیا تھا۔

یہ معاملہ طے کر کے جو ہم آئے ہیں تو یار دوست مارے خوشی کے دیوانے ہوگئے، ناچنے لگے اور یہ حال کہ تمام دوست میچ کھیلنے کو تیار! ایسے ایسے اناڑی کہ گیند کھیلنے سے پیشتر ہی آؤٹ ہو جائیں۔ بڑی مشکل سے ہم نے انتخاب کیا اور گہری دوستی ہی کو مجبوراً معیار قرار دیا۔ ایک صاحب کو محض اس وجہ سے رکھنا پڑا کہ انہوں نے دوسوٹ دوسرے کھلاڑیوں کو دینے کا وعدہ کیا۔ در اصل یہ بے حد ضروری تھا کہ ہم ٹھاٹ سے جائیں۔ ایک موٹر کرایہ پر کیا اور اتنے قبل از وقت ہم وہاں پہنچے ہیں کہ سوائے مزدورں اور خلاصیوں کے کوئی بھی نہ تھا۔ موٹر پر آنا بیکار گیا۔ اس دوران میں سب آپس میں پرتھوی راج کی فوج کی طرح ایک دوسرے سے عہد و پیمان کرتے رہے کہ بے حد اچھا کھیلیں گے۔ جب تک جان میں جان ہے اور بلا ہاتھ میں ہے، گیند کو وکٹ کے قریب بھی نہ جانے دیں گے خواہ کتنے ہی زور سے گیند آتی ہوگی، ہرگز ہرگز کریز نہ چھوڑیں گے۔ در اصل دو تین ایسے ہی تھے۔ ان سے قسمیں لیں۔

(۳)

بہت جلد خدائے عزوجل نے مہربانی کی اور میدان بھر گیا۔ سیکڑوں گورے بقول کسے ’’گورے پہ گورا‘‘ اور میمیں اور ادھر ادھر کے لوگ آجمع ہوئے۔ پہلے کا سا مجمع ہوگیا اور انتظام وہ زوردار کہ ریفرشمنٹ کے خیمہ کی طرف دیکھ کر ہم لوگ آپس میں جب آنکھ کا اشارہ کرکے مسکراتے تو اندر سے دل کھنچنے لگتا۔ کھانا بھی کون منحوس کھا کر آیا۔ کسی نے کہا کہ بھیا میں دو بسکٹ کھا کر آیا ہوں، کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا کھا کر اوپر سے بہت سا پانی پی کر آیا تھا۔ میں نے خود صرف ایک انڈے پر اکتفا کی تھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ڈٹ کر کھایا ہو کہ یاد کریں گورے بھی کہ آئی تھی کوئی ٹیم کرکٹ کھیلنے۔ میچ تھا، گوروں سے کوئی مذاق تھوڑا تھا۔

ہم آپ سے صحیح عرض کرتے ہیں کہ سہم ہی تو گئے جب گوروں کے کپتان نے کہا کہ ’’ٹاس!‘‘ گویا یہ طے ہو کہ کون پہلے کھیلے۔ ہم نے کہا کہ جیسا ہم پہلے عرض کر چکے ہیں عموماً ہم دو میچ کھیلتے ہیں۔ اس میچ میں ہم پہلے کھیل لیں اور دوسرے میچ میں آپ پہلے کھیل لیجیے گا۔ ایک گورے نے چوں و چرا کی تو ہم نے کہا کہ ’’صاحب ہم لوگ آخر کو ہندوستانی اور وہمی آدمی ہیں۔ شگون اور استخارہ سے کام چلاتے ہیں۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو اپنے عقیدے کے بموجب نہ صرف ہم ہار جائیں گے بلکہ اور کسی افتاد سے سابقہ پڑے گا۔‘‘ شگون اور استخارہ کے پاکیزہ اصول جب ان بے وقوف گوروں کو سمجھائے تو وہ بہت ہنسے اور راضی ہو گئے۔

جلدی جدی اور چپکے چپکے میں نے کھلاڑیوں کو قسمیں دے دے کر تاکید کی کہ دیکھو گڑبڑ نہ ہونے پائے، ڈرنا مت، ڈٹ کر کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے دو گھٹیا قسم کے کھلاڑی بلا لے کر میدان میں تالیوں کی گونج میں اترے۔ یہ دونوں دیکھنے میں بڑے عمدہ کھلاڑی معلوم ہوتے تھے، مگر اصلیت یہ تھی کہ گلی ڈنڈے سے آگے کچھ نہ جانتے تھے۔ تیار ہو کر کھڑے ہوئے۔ اُدھر سے گیند جو آئی تو ان کا وعدہ تھا کہ بالکل نہ ڈروں گا۔ چنانچہ وعدہ پورا کیا۔ انہوں نے وہ کس کر ہٹ لگایا کہ اگر گیند پر بلا پڑ جاتا تو تارا ہو جاتی، مگر وہ تو کمبخت وکٹ اڑالے گئی۔ انہیں پہلے ہی سے سکھا دیا گیا تھا اور باوجود آؤٹ ہونے کے اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ پوچھا تو کہنے لگے یہ تو ’’ٹرائل بال‘‘ تھی۔ گورے فوراً راضی ہوگئے مگر یہ حضرت تیسری گیند پر آؤٹ ہوگئے۔ دو خالی نکل گئیں۔

چوتھا شخص جو ہمارا پہنچا ہے، تو اس نے گوروں کو پریشان کر دیا۔ اچھا کھلاڑی تھا، ساتھی بھی اچھا ملا، چو طرفہ ہٹ لگائے اور کسی طرح گوروں کے قبضے میں نہ آیا تا وقتیکہ اس نے چونتیس رن نہ لیے، کل ملا کر ہمارے رن قریب پچاس کے پہنچے تھے کہ یہ خاکی پتلا اٹھا۔ یار لوگوں کو سکھا دیا تھا، اس واسطے خوب چیرز دیے گئے اور میں اس ٹاٹھ سے ’’کریز‘‘ پر پہنچا ہوں کہ بس دیکھا ہی کیجیے۔ پہنچتے ہی اول تو میں نے چاروں طرف ایسے نظر دوڑائی گویا یہ دیکھ رہا ہوں کہ کس گورے کو زیادہ دوڑانا چاہیے۔ دیکھ بھال کے بعد میں نے کریز ناپی۔ اس کے بعد ان کے امپائر سے بڑی شان کے ساتھ سنٹر مانگا۔ اپنے امپائر کو بھی آنکھ مار دی۔ وہ بھی پہنچا اور انتظام میں شریک ہو کر اس نے سائنٹفک طریقے پر غلطی نکال کر نئے سنٹر کی تصدیق کی اور وہ بھی اتنی جانچ پڑتال کے بعد کہ غالباً لوگ تنگ آگئے ہوں گے۔ اس کے بعد رومال جو میں ’’پویلین‘‘ میں قصداً چھوڑ آیا تھا وہ مانگا۔

فوراً ایک سدھایا ہوا ساتھی بگٹٹ لیے دوڑا آیا۔ اب جو دیکھتا ہوں تو سامنے گوروں کا خطرناک بولر ایک گٹھا ہوا، انتہا سے زیادہ سرخ اور سخت مضبوط، خود گیند کی طرح گول مول گورا تھا جو اس زور سے بھنا کر گیند پھینکتا تھا کہ معلوم ہو میکسم گن کا گولا ہے کہ چلا آرہا ہے! میں نے اس بدتمیز کو دیکھا کہ چلا وہ اِدھر سے گیند لے کر اور اُدھر قبل اس کے ہاتھ سے گیند چھوٹے، میں ’’ناٹ ریڈی‘‘ کہہ کر کریز کو چھوڑ کر پرے ہٹ گیا۔ گیند بیچ کا وکٹ اڑائے چلی گئی۔ میں نے معذرت کی، کچھ نہیں ایسا بھی ہوتا ہے۔ میں نے اس طرح سے گیند کی رفتار بھی معلوم کر لی۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اگر کہیں لگ گئی یہ گیند میرے سر پر، تب کیا ہوگا۔ دل نے کہا کہ بھیا مرزا کھیل گیا چولہے میں۔ یہ گیند نہیں گولا ہے جسے ایک موذی پھینک رہا ہے۔ سب کپتانی دھری رہ جائے گی جو پھوٹ گیا سر تو ریفرشمنٹ کے خیمہ کے بجائے یہی نامعقول گورے تمہیں خالی پیٹ ملٹری ہسپتال نہ پہنچا دیں گے اور پھر کیک پیسٹری کے بجائے صرف کھاری سوڈا ہاتھ آئے گا۔

چنانچہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بادل ناخواستہ گیند پھینکنے کی اجازت دی۔ دل دھڑکنے لگا۔ منہ بنا کر اور بدن کو جھٹکا دے کر وہ کمبخت لپکا ہے کہ گیند تو اس کے ہاتھ سے چھوٹتے نظر آئی۔ میں نے کچکچا کر بلا مضبوط پکڑ لیا تھا اور اٹھا کر ہٹ لگانے کے امکان پر غور کرنے ہی کو تھا کہ ’’کھٹکا‘‘ ہوا۔ میں چونک پڑا، کیا آؤٹ ہوگیا! مگر نہیں گیند بلے پر پڑی تھی۔ لوگوں نے نعرہ ہائے تحسین بلند کیے ’’ویل پلیڈ، ویل ڈن، ویل ججڈ۔‘‘ ان معقول آوازوں کے ساتھ ہی ’’اوور‘‘ ختم ہو گیا۔ اب دوسرے کھلاڑی کی باری تھی۔ ان کا ویسے ہی دم سوکھ رہا تھا، اِدھر میں نے ان سے کہا ’’اسٹڈی‘‘ ادھر تڑ سے وکٹ ان کا غائب۔

نیا کھلاڑی آیا۔ اس نے بھگتان بھگتا ہی تھا کہ پھر میرا نمبر آیا۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر یہ اوور کھیل لیے خیریت سے تو پھر ایک سرے سے کرکٹ ہی کھیلنا کم کر دیں گے، اُدھر بولر جھومتا چلا اور اِدھر میں نے دل میں سوچا کہ گیند یا تو میری طرف آئے گی اور یا وکٹوں کی طرف۔ اگر ہٹ نہ لگا تو کیا ہے گیند بھی تو نہ لگے گی۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ گیند خود اپنی طرف تو نہیں آ رہی۔ در اصل کرکٹ کا یہی گر ہے۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں تیار ہوگیا۔ اُدھر سے گیند جو آئی دندناتی ہوئی تو صحیح عرض کرتا ہوں کہ جس وقت بولر کے ہاتھ سے چھوٹی ہے، میرا قطعی ارادہ نہیں تھا کہ اس پر باؤنڈری لگاؤں گا کیونکہ وہ وکٹ کی طرف آ رہی تھی، مگر جب تک گیند آدھی مسافت طے کرے میں ’’چوٹ پھینٹ‘‘ کے امکان پر غور کر چکا تھا۔

وکٹوں کی طرف۔۔۔ میری طرف۔۔۔ وکٹ محفوظ! مگر نہیں وہ تو دونوں طرف آتی ہوئی معلوم ہوئی۔ وکٹ گئے چولہے میں۔ کوئی چارہ کار نہ تھا، سوائے اس کے کہ استغفار پڑھ کر آنکھ میچ کے بلے کی ڈھال بناتے ہوئے جگہ سے ’’نو بول‘‘ کہہ کر اچھل کے دور گروں۔ اس کارروائی میں بلے کی جگہ میرے پیر نے لی اور اس پر زور سے گیند لگی اور اُھر میں ’’نو بال‘‘ کہہ کر پھاند چکا تھا۔ سکھایا پڑھایا امپائر اپنا تھا۔ دونوں طرف سے اپیل ہوئی۔ ہماری طرف والے بولے، ’’ناٹ آؤٹ۔‘‘ امپائر بھی بول اٹھا، ’’ناٹ آؤٹ۔‘‘ گورے بھنا کر رہ گئے۔ قاعدہ اچھا ہے جو امپائر کہے وہ سچ اور ہم نے تو اپنے امپائر سے کہہ دیا تھا کہ اگر تمہاری وہاں کسی نے کرکری کی تو حسب دستور جھگڑا کر کے میچ بند کر دیں گے۔

اب دوسری گیند جو آئی تو میری ہمت قلابازی کھا رہی تھی۔ آنکھ میچ کے یا علی کہہ کر جو ہٹ بڑھ کر دیا تو بلا خالی اور گیند شانے کو چاٹتی ہوئی ٹوپی اڑالے گئی۔ میں پھر چیخا، ’’نوبال‘‘ مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب سوائے جان پر کھیل جانے کے چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد پھر جو گیند آئی تو کیا عرض کروں، جانچ تول کر ہٹ بھی لگایا، نشانہ بھی صحیح بیٹھا مگر وکٹ غائب، بس یہ معلوم ہو۔ میرے بعد پھر جو باقی بچے وہ بہت برا کھیلے، ڈر کے مارے کریز پھاند پھاند پڑے، اِدھر اُدھر کی جاتی گیندوں کو مردانہ وار ران اور پشت پر لیا اور جو سیدھی آئی وکٹ لیے چلی گئی۔ کل ہمارے ساٹھ ستر رن کے قریب ہوئے اور سب آؤٹ۔ ہم بھی اس حماقت سے چھٹی پا کر خوش ہوئے کہ چلو اب اصل کھیل تو شروع ہوگا ریفرشمنٹ والا، اب دیکھیں یہاں کون کون ہٹ اور باؤنڈری لگاتا ہے۔

(۴)

ناشتے کی میز پر گھمسان کا معرکہ رہا۔ گورے خود بے تکلف اور ہم سب بے تکلف اور مزید برآں بھوکے۔ الم غلم جو سامنے آیا پار کیا۔ بعض چیزیں تو اس گڑبڑ کے عالم میں کھائیں کہ نمک ڈالنا بھول گئے اور بعض کا ذائقہ یاد نہ رہا۔ دل کو سمجھا لیا کہ بھئی انگریزی کھانے پھیکے میٹھے تو ہوتے ہی ہیں۔ میں خود پورا ایک کیک کھا گیا۔ گوروں نے بمشکل فی کس اتنا کھایا ہوگا کہ اس کا چوگنا ہمارے یہاں اس شخص نے کھایا جس نے سب سے کم کھایا۔ اس پر چائے اور پان کے بجائے نارنگیاں۔ غرض وہ ڈٹ کے کھایا کہ اب جو پانی پیتے ہیں تو جی یہی چاہا کہ اب ’’باقی پھر‘‘ مگر ہمیں تو میچ کھیلنا اور ’’جیتنا‘‘ بھی تھا۔

عرض ہے کہ یہ خاکسار وکٹ کیپری میں قدرے ماہر ہے، لہٰذا جب گوروں کے کھیلنے کی باری آئی تو ان فرائض کا بارگراں اپنے ہی کندھوں پر رکھا۔ اپنے کھلاڑیوں کو قرینے سے کھڑا کیا، کسی کو خواہ مخواہ ذرا سا اِدھر ہٹایا، کسی کو اُدھر ہٹایا، کسی کی جگہ بدلی۔ اس کے بعد بندہ نہایت ہی ہوشیاری سے بڑی شان کے ساتھ اپنے اہم فرائض میں مصروف ہوگیا۔

ہماری طرف سے پہلی ہی گیند آئی ہے کہ غدر مچ گیا۔ گوروں نے کس کر ہٹ لگایا۔ ہٹ اوچھا پڑا اور بڑا عمدہ ’’سلپ‘‘ نکلا۔ ایسا کہ گیند اٹھ گئی اور سیدھی ہمارے ایک ہوشیار کھلاڑی کے سینہ کی طرف ایک بہترین ’’کیچ‘‘ کا امکان لیے ہوئے آئی مگر کھلاڑی ایک ہوشیار ٹھہرا۔ صاف بچا گیا۔ سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور گیند اوپر سے نکل گئی اور پرے گری۔ لپک کر ہمارے ایک بہادر نے لی، گورا رن کر رہا تھا، لہٰذا انہوں نے بڑے زور سے وکٹ کیپر یعنی میری طرف پھینکی تاکہ میں وکٹ میں مار دوں۔ اب میرے پاس جو گیند آئی تو اول تو بہت ہی قریب سے پھینکی گئی تھی اور پھر اس زور سے پھینکی تھی کہ الامان، لہٰذا قصداً اور غیر قصداً گیند مجھ سے نکل گئی اور میں اپنی ڈیوٹی چھوڑ چھاڑ ایک نعرہ مار کر گیند کے پیچھے! مگر مجھ سے پہلے ایک اور ہمارے کھلاڑی نے اٹھالی اور زور سے جو وکٹوں کی طرف پھینکی یا ماری ہے تو وہ گولی کی طرح وکٹوں کے کچھ فاصلے سے ہو کر نکلی چلی گئی۔

وہاں روکتا کون۔ میں تو یہاں تھا۔ اب میں پھر لوٹا اور بجائے وکٹوں پر رکنےکے گیند کی طرف دوڑا۔ وہاں گیند دور پہنچ چکی تھی۔ ایک صاحب نے اٹھا کر مجھے دی۔ میں نے دیکھا کہ میری جگہ ایک اور ہمارے کھلاڑی آگئے ہیں اور گیند کے منتظر ہیں کہ پہنچے تو وکٹوں کو گرا دیں لہٰذا میں نے اپنی پوری قوت سے گیند ان کی طرف پھینکی۔ انہوں نے ویسے تو بڑی تیاری کی تھی لیکن جب گیند قریب آئی تو آدمی یہ بھی سمجھدار تھے۔ صاف اپنے پیر بچانے کے لیے اچھل گئے اور پھر گیند نکلی چلی گئی اور اس درمیان میں گورے ہیں کہ زنازن، رن پہ رن! میں پھر گیند کی طرف لپکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے دو کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکل گئی ہے۔ ایک نے اپنی ہی جگہ تڑپ کر کہا، ’’اماں لینا۔۔۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’چہ خوش! اپنی بلا میرے سر، خود کیوں نہیں دوڑتے۔‘‘

میں کپتان تھا، عزت ہمارے ہاتھ تھی، دوڑ کر گیند کو پکڑ ورنہ باؤنڈری ہو جاتی، مگراب گھوم کر جو دیکھتے ہیں تو گوروں نے رن کرنا بند کر دیے ہیں۔ کوئی بیس بائیس رن تو ہوچکے تھے اوراگر وہ کئے جاتے تو دس بارہ اور ہوجاتے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو گیند ہاتھ ہی میں لیے لپکتا آیا۔ دونوں کھلاڑی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر میری طرف آگئے تھے۔ تیوری پر ان کے بل تھے۔ ایک گورے نے بڑھ کر مجھ سے کہا، ’’وہٹ از گوئنگ آن کیپٹن؟‘‘ بجائے جواب کے میں نے گیند کو وکٹ پر چھواتے ہوئے امپائر سے پوچھا، ’’ہاؤزٹ امپائر؟‘‘ ہمارا امپائر بولا، ’’آؤٹ۔‘‘ اس پر پویلین سے ایک شور سا ہوا۔ ہم خود قاعدہ قانون سے واقف، اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ہم قصداً رن بنانے کا غنیم کو موقع دے رہے تھے تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ رن کرنے والے رن کرتے کرتے نہ صرف رک جائیں، بلکہ اِدھر اُدھر افیونیوں کی طرح گھومنے لگیں، خود ان کے امپائر سے ہم نے بھی کہلوا لیا کہ کھلاڑی آؤٹ ہوگیا۔ بحث اور حجت تک نوبت پہنچی۔ ہم نے بھی کہا کہ صاحب ہم بہترین فیلڈنگ کر رہے ہیں۔ آپ رن کیے جائیے۔ آپ کو ہماری فیلڈنگ سے کیا بحث۔ چاہے ہم زیادہ رن بنوا دیں یا تھوڑے، آپ کون؟ آپ کو رن کرنے سے مطلب۔

چنانچہ اب جو گورے صاحبان کھیلنے کھڑے ہوئے ہیں تو ہماری فیلڈنگ کا رنگ ہی اور تھا۔ وہ کھلاڑی جو ’’ہٹ‘‘ پر تھا جیب میں تاش لایا تھا اور کنارے بیٹھا ’’باؤنڈری مین‘‘ کے ساتھ ’’چائنس‘‘ کھیل رہا تھا۔ جو کھلاڑی ’’آف‘‘ پر تھا وہ ہاتھ نچا نچا کر گنگنا رہا تھا۔ ’’موٹر کا پہیہ تیز سیاں ہم نہیں بیٹھیں گے۔۔۔‘‘

’’لانگ وکٹ کیپر‘‘ بیٹھا ہوا تھا، پوچھا کیوں، تو بولا، ہم اِدھر سے گیند ہرگز نہ جانے دیں گے، تمہاری بلا سے بیٹھیں یا لیٹیں۔ باقی جوان سے زیادہ مستعد تھے وہ بجائے علیحدہ علیحدہ کھڑے ہونے کے باتیں کرنے کے لیے دو دو اکٹھے کھڑے تھے یا لیٹے تھے۔ کچھ مونگ پھلیاں ٹھونگ رہے تھے۔ کھا اتنا لیا تھا کہ چلنا مشکل تھا۔ فیلڈ کی یہ حالت اور ادھر ہمارا بولر باربار کھلاڑیوں کو پکار کر کہہ رہا تھا کہ ’’ریڈی پلیز‘‘ اور ادھر میں بھی اپنے ’’مڈگارڈ‘‘ ٹانگوں پر چڑھائے ’’یس۔۔۔ یس۔۔۔‘‘ کہہ رہا تھا اور ادھر گورے صاحبان بجائے کھیل کے حجت اور بحث پر آمادہ! آگ بگولا ہوکر مجھ سے گورے نے کہا، ’’تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ اور ہمارے دو مستعد کھلاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی جو اس وقت تندہی سے پنجہ لڑا رہے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ ہمارے کھلاڑی در اصل اپنی ذمہ داری خوب سمجھتے ہیں، آپ کو تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری ٹیم ایک جگہ نہیں سیکڑوں جگہ سے جیت کر آئی ہے۔ قصہ مختصر میں نے اور ہمارے بولر نے تقاضا کر کر کے گورے کو راضی کیا۔ ہمارے بولر نے قصداً گیندیں بچا بچا کر دینی شروع کیں، ایسی کہ گورے کہ پیچھے سے نکلی چلی جائے۔ چوتھی گیند گورے نے بڑھ کر کس کر ٹھونک دی اور اسی پر ہم میچ جیت گئے۔

گیند میں ہٹ جو لگا اور میں نے جو کہا ہے کہ ’’لینا‘‘ تو اب ہمارے کھلاڑیوں کی مستعدی ملاحظہ کیجیے کہ جو جہاں تھا وہیں سے دوڑ پڑا! گیند کی طرف! اور وہ بھی اس قدر بے تحاشا کہ بس دیکھا ہی کیجیے مگر گیند چونکہ آگے جا چکی تھی اور دوڑنے والوں نے قدرے دوسری سمت اختیار کی تھی لہٰذا بہت جلد وہاں سے لوگ پکارے ’’ہمیں نہیں ملتی۔‘‘ اور پھر فوراً یہ روح فرسا پیام آیا کہ ’’کھو گئی۔‘‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ سن کر ہمارے بولر نے نعرہ مارا، ’’کھو گئی۔۔۔‘‘ اب گوروں کی حماقت ملاحظہ ہو کہ رن نہیں کرتے۔ میں نے ہاتھ جھٹک کر ترغیب دی، ’’گو آن سر۔۔۔ رن آن۔‘‘

پویلین سے قہقہے بلند ہوئے اور سیکڑوں آدمی چلائے، ’’رن آن رن آن۔‘‘ مگر توبہ کیجیے گڑبڑ ہوگئی۔ تمام لوگ پویلین پر سے اترپڑے۔ ان میں سے کچھ غصہ تھے لیکن باقی ہنس رہے تھے۔ مگر خود کھلاڑی گورے آگ بگولا ہو رہے تھے، سوائے دوتین کھلاڑیوں کے جو میری پیٹھ ٹھونک کر کہنے لگے، ’’ویل پلیڈ کیپٹن۔‘‘ اور میں حجت کر رہا تھا کہ آپ لوگ کیوں کھیل بند کیے دیتے ہیں۔ ہمارے سب کھلاڑی آن موجود ہوئے۔ بحث شروع ہوگئی، جن دو گوروں نے رن کیے تھے ان کا میمیں اور لڑکیاں اتنا مذاق اڑارہی تھیں کہ خود اپنی حماقت پر انہیں ہنسی آنے لگی۔ بہتیرا ہم نے کہا کہ کھیلو مگر گورے نہ مانے۔ جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو ہم نے امپائر سے ’’رول مانگا۔‘‘ نتیجہ یہ کہ ہم قریب پچاس ساٹھ رن سے جیتے اور بوجہ فریق مخالف کے نہ کھیلنے کے میچ ختم ہوگیا۔

اس کامیاب میچ کے بعد ہم نے کانپور میں دو تین اسی طرح کے میچ کھیل ڈالے حتی کہ ایک میچ میں زد و کوب تک کی نوبت پہنچی۔ پھر تو یہ دستور ہوگیا کہ جو بھی ٹاس جیتا وہ میچ بھی جیت گیا۔ پھر جب علی گڑھ میں ایم سی سی کا میچ ہوا تو نہ صرف ایک ٹیم تیار کرلی تھی بلکہ ہماری ٹیم کے سرپرست اعلیٰ اور دوسرے احباب ایک ہزار تک روپیہ بھی ایم سی سی کو دینے کو تیار تھے اور میں اس سلسلہ میں بہت کچھ دوڑا دھوپا، مگر گلیکن نے وقت کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا۔ ورنہ ہم صحیح کہتے ہیں کہ اس میدان پر ان کو شکست دیتے جس جگہ انہوں نے ہماری یونیورسٹی کو شکست دی تھی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.