کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
Appearance
کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
رکھے دل کو مرے ناشاد جتنا اس کا جی چاہے
ہمیں بھی صبر خاطر خواہ داد حق ہے الفت میں
وہ دے جور و جفا کی داد جتنا اس کا جی چاہے
یہ مظلوم محبت داد رس ہرگز نہ پاوے گا
کرے دل داد اور فریاد جتنا اس کا جی چاہے
عدم ہے اور وجود اس مشت پر کا بھی مساوی سا
ستم ہم پر کرے صیاد جتنا اس کا جی چاہے
بلائے ناگہاں گریہ گرفتاری نہیں غافل
وہ ہو غم سے مرے آزاد جتنا اس کا جی چاہے
نہیں ہے سر نوشت اس کی لب جاں بخش شیریں کی
کرے جاں کندنی فرہاد جتنا اس کا جی چاہے
ہمیں حسرتؔ فراموشی بھی اس کی یادگاری ہے
کرے گو ہم کو کمتر یاد جتنا اس کا جی چاہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |