کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
Appearance
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا
بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا
اس کان کے جھمکے کی لٹک دیکھ لی شاید
ہر خوشہ اسی تاک میں رہتا ہے عنب کا
دیکھا جو بڑی دیر تلک اس نے منہ اپنا
لے دست حنا بستہ میں آئینہ حلب کا
جب ہم نے کہا رکھیے اب آئینہ کو یہ تو
حصہ ہے کسی اور بھی دیدار طلب کا
یہ سن کے ادھر اس نے کیا غصے میں منہ سرخ
بھبکا ادھر آئینہ بھی ہمسر ہو غضب کا
تم ربط کے ڈھب جس سے لڑاتے ہو نظیرؔ آہ
وہ دلبر عیار ہے کچھ اور ہی ڈھب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |