کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
Appearance
کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
اب ہمیں دے دو یہ مٹی ہے ہمارے کام کی
ڈوب دے دے بادۂ گل رنگ میں زاہد اگر
دیکھیے رنگینیاں پھر جامۂ احرام کی
عکس ابرو دیکھتے ہیں بادۂ سرجوش میں
عید ہے ساقی پرستوں میں ہلال جام کی
ابتدائے عشق ہے اور بجھ رہا ہے دل مرا
ہو چلی دھیمی ابھی سے لو چراغ شام کی
آنکھ میں آنسو ہیں ماتھے پر عرق ہے موت کا
لے خبر عمر رواں اپنے چھلکتے جام کی
ہو گئی بازیچۂ اطفال بے ذوق و شعور
شاعری جو تھی مرادف معنی الہام کی
پختگی سمجھے ہوئے ہیں جو تناسب کو فقط
چاہیے اصلاح ان کو اس خیال خام کی
ہے یہ نازک فن جو شایان تہی مغزی نہیں
دور مجلس میں ضرورت کیا ہے خالی جام کی
ٔہے عزیزؔ آئینۂ لفظی مراعات النظیر
حسن معنی جب نہیں پھر شاعری کس کام کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |