Jump to content

کسی بت کی ادا نے مار ڈالا

From Wikisource
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
by مضطر خیرآبادی
308573کسی بت کی ادا نے مار ڈالامضطر خیرآبادی

کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا

جفا کی جان کو سب رو رہے ہیں
مجھے ان کی وفا نے مار ڈالا

جدائی میں نہ آنا تھا نہ آئی
مجھے ظالم قضا نے مار ڈالا

مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

انہیں آنکھوں سے جینا چاہتا ہوں
جن آنکھوں کی حیا نے مار ڈالا

ہمارا امتحاں اور کوئے دشمن
کسی نے بے ٹھکانے مار ڈالا

پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.