کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
Appearance
کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
نہ اٹھا میں ہی اس کوچے سے یہ میں نے زمیں پکڑی
خدا شاہد ہے دل پر چوٹ سی اک لگ گئی میرے
بہانا درد سر کا کر کے جب اس نے جبیں پکڑی
سوا ان کے نہ کہنا اور سے آفت نہ کچھ آئے
نہ جانے بات میری قاصدا شاید کہیں پکڑی
بھلا اب مجھ سے چھٹتا ہے کہیں اس شوخ کا چسکا
یہ کیا ہے چھیڑ میری ہر گھڑی کی ہم نشیں پکڑی
غضب ہیں آپ بھی میں نے تو تم سے کان پکڑا ہے
ہوا جب کچھ میں کہنے کو زباں میری وہیں پکڑی
یہ قسمت وصل کی شب صبح تک تکرار میں گزری
ادھر کچھ میں نے ضد پکڑی ادھر اس نے نہیں پکڑی
مجھے ڈسواؤ اک مار سیہ سے یہ سزا دیجے
جفا کی اپنے صاحب کی جو زلف عنبریں پکڑی
خدا کے فضل سے ایسی طبیعت ہے نظامؔ اپنی
غزل دم میں کہی فضل خدا سے جو زمیں پکڑی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |