کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
Appearance
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
مذاق تلخ پسندی نہ پوچھ اس دل کا
بغیر مرگ جسے زیست کا مزا نہ ملا
دبی زباں سے مرا حال چارہ ساز نہ کہہ
بس اب تو زہر ہی دے زہر میں دوا نہ ملا
خدا کی دین نہیں ظرف خلق پر موقوف
یہ دل بھی کیا ہے جسے درد کا خزانہ ملا
دعا گدائے اثر ہے گدا پہ تکیہ نہ کر
کہ اعتماد اثر کیا ملا ملا نہ ملا
ظہور جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا
تلاش خضر میں ہوں رو شناس خضر نہیں
مجھے یہ دل سے گلہ ہے کہ رہنما نہ ملا
نشان مہر ہے ہر ذرہ ظرف مہر نہیں
خدا کہاں نہ ملا اور کہیں خدا نہ ملا
مری حیات ہے محروم مدعائے حیات
وہ رہ گزر ہوں جسے کوئی نقش پا نہ ملا
وہ نامراد اجل بزم یاس میں بھی نہیں
یہاں بھی فانیؔ آوارہ کا پتا نہ ملا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |