کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
Appearance
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی
کن کن مصیبتوں سے ہوئی صبح شام ہجر
سو زلفیں ہی بناتے اسے رات ہو گئی
گردش نگاہ مست کی موقوف ساقیا
مسجد تو شیخ جی کی خرابات ہو گئی
ڈر ظلم سے کہ اس کی جزا بس شتاب ہے
آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہو گئی
خورشید سا پیالۂ مے بے طلب دیا
پیر مغاں سے رات کرامات ہو گئی
کتنا خلاف وعدہ ہوا ہوگا وہ کہ یاں
نومیدی و امید مساوات ہو گئی
آ شیخ گفتگوے پریشاں پہ تو نہ جا
مستی میں اب تو قبلۂ حاجات ہو گئی
ٹک شہر سے نکل کے مرا گریہ سیر کر
گویا کہ کوہ و دشت پہ برسات ہو گئی
دیدار کی گرسنگی اپنی یہیں سے دیکھ
اک ہی نگاہ یاروں کی اوقات ہو گئی
اپنے تو ہونٹ بھی نہ ہلے اس کے روبرو
رنجش کی وجہ میرؔ وہ کیا بات ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |