کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا
کل جو رخ عرق فشاں یار نے ٹک دکھا دیا
پانی چھڑک کے خواب سے فتنے کو پھر جگا دیا
اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے رو بہ رو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا چاہا ادھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وو تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا
گزرے جو سوئے خانقاہ واں بھی بہ شکل جانماز
اہل صلوٰۃ و زہد کو فرش کیا بچھا دیا
نکلے جو راہ دیر سے اک ہی نگاہ مست میں
گبر کا صبر کھو دیا بت کو بھی بت بنا دیا
شکوہ ہمارا ہے بجا مفت بروں سے کس لیے
ہم نے تو اپنا دل دیا ہم کو کسی نے کیا دیا
سن کے ہمارے حال کا یار نے اک سخن نظیرؔ
ہنس کے کہا کہ بس جی بس تم نے تو سر پھرا دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |