کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
کل گئے تھے تم جسے بیمار ہجراں چھوڑ کر
چل بسا وہ آج سب ہستی کا ساماں چھوڑ کر
طفل اشک ایسا گرا دامان مژگاں چھوڑ کر
پھر نہ اٹھا کوچۂ چاک گریباں چھوڑ کر
کیونکہ نکلے تیرا اس کا دل میں پیکاں چھوڑ کر
جائے بیضے کو کہاں یہ مرغ پراں چھوڑ کر
جس نے ہو لذت اٹھائی زخم تیغ عشق کی
کب وہ مرہم دان کو ڈھونڈے نمک داں چھوڑ کر
صید دل کو کیونکہ چھوڑے جب کہ دکھلا دے نہ تو
مچھلیاں دست حنائی میں مری جاں چھوڑ کر
سرد مہری سے کسی کی آگے ہی جی سرد ہے
یاں سے ہٹ جا دھوپ اے ابر خراماں چھوڑ کر
دیکھیے کیا ہو کہ ہے اب جان کے پیچھے پڑی
دل کو اے کافر تری زلف پریشاں چھوڑ کر
اے دل اس کے تیر کے ہم راہ سینے سے نکل
ورنہ پچھتائے گا تو یہ ساتھ ناداں چھوڑ کر
کیوں نہ رم کر جائیں آہو ایسے وحشی سے ترے
شیر بھاگیں جس کے نالوں سے نیستاں چھوڑ کر
سرخی پاں دیکھ لے زاہد جو دنداں پر ترے
اٹھ کھڑا ہو ہاتھ سے تسبیح مرجاں چھوڑ کر
پیش خیمہ لے کے نکلا گرد باد دور رو
ہے جو سرگرم سفر تن کو مری جاں چھوڑ کر
گر خدا دیوے قناعت ماہ دوہفتہ کی طرح
دوڑے ساری کو کبھی آدھی نہ انساں چھوڑ کر
ساغر دل بیچتا آیا ہوں کھو مت ہاتھ سے
چوکتا ہے کیوں یہ جنس دست گرداں چھوڑ کر
کام یہ تیرا ہی تھا رحمت ہو اے ابر کرم
ورنہ جائے داغ عصیاں میرا داماں چھوڑ کر
پڑھ غزل اے ذوقؔ کوئی گرم سی اب تو نہ جا
جانب مضمون طرز تفتہ جاناں چھوڑ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |