کوئی سمجھائیو یارو مرا محبوب جاتا ہے
Appearance
کوئی سمجھائیو یارو مرا محبوب جاتا ہے
مرا مقصود جاتا ہے مرا مطلوب جاتا ہے
مبارک ماہ کنعاں اے زلیخا چشم ما روشن
بس اتنی بات کہنے مصر میں یعقوب جاتا ہے
دعا کہہ کر چلا بندہ سلام آکر کرے گا پھر
خط آوے جب تلک تو بندگی سے خوب جاتا ہے
ہنر اپنے کیے ظاہر اگر تجھ کو نہیں بھاتے
تو اب سو عیب کا قائل ہو یہ معیوب جاتا ہے
بیاںؔ جب میں بیاں کرتا ہوں یہ مضمون مضموں کا
کبھو آنکھیں بھر آتی ہیں کبھو جی ڈوب جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |