کوئی میداں نہ جیتا عشق کا فرہاد کے آگے
Appearance
کوئی میداں نہ جیتا عشق کا فرہاد کے آگے
کسو نے دم نہ مارا تیشۂ فولاد کے آگے
گئے دوڑے نہ آخر حضرت یعقوب کنعاں سے
زمیں ناپے پدر بھی حسن مادر زاد کے آگے
اکیلا کیونکہ لگتا بستیوں میں دل بچارے کا
نہ ہوتا نقش شیریں کا اگر فرہاد کے آگے
اگر دھڑکا ہو جنت میں تو بد تر ہے جہنم سے
ہمیں گل خار سا لگتا ہے اس صیاد کے آگے
یقیںؔ اس قد کے آگے اس طرح سے سرو رسوا ہے
درختان بیابانی ہیں جوں شمشاد کے آگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |