کوئی کر سکتا ہے یارو جیسا میں نے کام کیا
کوئی کر سکتا ہے یارو جیسا میں نے کام کیا
یار کے ذمے دی کر نیکی اپنے تئیں بد نام کیا
آنکھوں سے سہلایا کیا میں تلوے اس کے وقت خواب
اتنی خدمت دیکھ مری گھر غیر کے جا آرام کیا
کون سی شب بے نالہ و زاری میں نے نہیں کی اس بن صبح
کون سا دن بے رنج و مصیبت میں نہ رو رو شام کیا
کچھ نہ چلا بس اس پہ عزیزو اپنی ہی میں جان پہ کھیلا
آخر درد ہجر نے اس کے میرا کام تمام کیا
شب کہا میں نے اس سے مرا دل زلف کا تیری بندہ ہے
کیوں اسے تو نے قیدیٔ دام سنبل مشکیں فام کیا
کافی تھا اس کی بستگی کو تو تار کاکل رشتۂ زلف
کر کے اسیر حلقۂ گیسو کیوں اسے بے آرام کیا
چیں بہ جبیں ہو بولا دور ہو تجھ کو ہے سودا دیوانے
چھوٹنے کا کیوں اس کے تو نے دل میں خیال خام کیا
اول مرغ رشتہ بپا سا تھا پابند تار زلف
حلقۂ گیسو میں لا اس کو آخر صید دام کیا
آرزو یک بوسہ کی رکھتا دل میں جہاں دارؔ اے پیارے
لعل لب شیریں سے تم نے پر نہ کبھو انعام کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |