کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
طائر دل قفس تن میں جو گھبراتا ہے
زلف مشکیں کا جو اس شوخ کے دھیان آتا ہے
زخم سے سینۂ مجروح کا چر جاتا ہے
ہجر میں موت بھی آئی نہ مجھے سچ ہے مثل
وقت پر کون کسی کے کوئی کام آتا ہے
اب تو اللہ ہے یاران وطن کا حافظ
دشت میں جوش جنوں ہم کو لیے جاتا ہے
ڈوب کر چاہ ذقن سینہ مرا دل نکلا
قد آدم سے سوا آب نظر آتا ہے
مژدہ اے دل کہ مسیحا نے دیا صاف جواب
اب کوئی دم کو لبوں پر مرا دم آتا ہے
تیغ سی چلتی ہے قاتل کی دم جنگ زباں
صلح کا نام جو لیتا ہے تو ہکلاتا ہے
طرۂ کاکل پیچاں رخ نورانی پر
چشمۂ آئینہ میں سانپ سا لہراتا ہے
شوق طوف حرم کوئے صنم کا دن رات
صورت نقش قدم ٹھوکریں کھلواتا ہے
دو بہ دو عاشق شیدا سے وہ ہوگا کیونکر
آئینے میں بھی جو منہ دیکھتے شرماتا ہے
سخت پچھتاتے ہیں ہم دے کے دل اس کو سیاحؔ
اپنی افسوس جوانی پہ ہمیں آتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |