Jump to content

کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں

From Wikisource
کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
by مصطفٰی خان شیفتہ
297512کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیںمصطفٰی خان شیفتہ

کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
اے دل یقین جان کہ ہم ہیں تو تو نہیں

بے اشکِ لالہ گوں بھی میں بے آبرو نہیں
آنسو میں رنگ کیا ہو کہ دل میں لہو نہیں

پھر بھی کہو گے چھیڑنے کی اپنی خو نہیں
عطرِ سہاگ ملتے ہو وہ جس میں بو نہیں

یہ کیا کہا کہ بکتے ہو کیوں آپ ہی آپ تم
اے ہم نشیں مگر وہ مرے روبرو نہیں

بے طاقتی نے کام سے یہ کھو دیا کہ بس
دل گم ہوا ہے اور سرِ جستجو نہیں

محفل میں لحظہ لحظہ وہ چشمِ ستیزہ خو
لڑتی ہیں کیوں اگر سرِ صلحِ عدو نہیں

کیا جوشِ انتظار میں ہر سمت دوڑ ہے
بدنامیوں سے ہائے گزر ایک سو نہیں

دی کس نے اشکِ سرمہ سے تیغِ مژہ کو آب
شورِ فغاں کو فکرِ خراشِ گلو نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.